چین کا اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ، فلسطینی ریاست کے قیام پر زور
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
بیجنگ: چین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل کو اپنائے۔ چین نے ساتھ ہی عرب ممالک کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانے پر بھی زور دیا ہے۔
یہ بیان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے دوران چین کے نائب مستقل مندوب گینگ شوانگ نے دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اسرائیل کے ان اقدامات پر گہری تشویش رکھتا ہے، جو خطے میں صورتحال کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
چینی مندوب نے کہا: “دو ریاستی حل کا مکمل نفاذ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلہ فلسطین کا واحد پائیدار حل ہے‘‘۔ انہوں نے ایک مؤثر اور پائیدار جنگ بندی معاہدے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا۔
ادھر چین کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ ژائی جون نے بیجنگ میں عرب ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی اور کہا کہ چین چاہتا ہے کہ عرب ممالک فلسطینی کاز میں مزید فعال کردار ادا کریں اور آپس میں اتحاد قائم رکھیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اطلاعات کے مطابق اسرائیلی قیادت غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے، جس سے صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آسٹریلوی وزیر خارجہ کا فلسطینی ریاست کی ممکنہ نابودی پر انتباہ
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے خبردار کیا ہے کہ خطرہ ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے کچھ باقی ہی نہ بچے، ان کا یہ بیان اسرائیل کی غزہ میں جاری تباہ کن جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔
آسٹریلوی نشریاتی ادارے اے بی سی کو منگل کی صبح دیے گئے انٹرویو میں آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ سے سڈنی میں منعقدہ ایک بڑے مظاہرے پر سوالات کیے گئے، جس میں اسرائیل کے خلاف اور غزہ پر حملوں کے خلاف سینکڑوں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
منتظمین کے مطابق، اتوار کے روز سڈنی ہاربر برج پر ہونے والے اس احتجاج میں 2 سے 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، جبکہ پولیس نے ابتدائی طور پر 90 ہزار افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
پینی وونگ نے کہا کہ آسٹریلوی حکومت مظاہرین کی امن اور جنگ بندی کی خواہش کی حمایت کرتی ہے، اور یہ بڑی تعداد میں شرکت آسٹریلوی عوام کی گہری تشویش اور خوف کی عکاسی کرتی ہے جو وہ غزہ میں پیدا ہونے والی ہولناک انسانی صورتحال، خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں اور امداد کی بندش کے مناظر دیکھ کر محسوس کر رہے ہیں۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آسٹریلیا اسرائیل پر پابندیاں لگانے جیسے ٹھوس اقدامات پر غور کر رہا ہے تو پینی وونگ نے کہا کہ وہ پابندیوں کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرتیں کیونکہ ان کا اثر اسی وقت زیادہ ہوتا ہے جب ان کی پیشگی اطلاع نہ دی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آسٹریلیا پہلے ہی جون میں اسرائیلی حکومت کے دو دائیں بازو کے وزرا، اتمار بن گویر اور بیزلیل سموٹریچ، کے علاوہ بعض شدت پسند یہودی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کرچکا ہے۔
مزید پڑھیں:
آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ پینی وونگ کا کہنا تھا کہ جہاں تک تسلیم کرنے کا تعلق ہے، وہ گزشتہ ایک سال سے کہہ رہی ہیں کہ یہ اس بات کا سوال نہیں ہے کہ آیا ایسا ہوگا یا نہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ کب ہوگا۔
پینی وونگ کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اطلاعات کے مطابق آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز اتوار کے احتجاج کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے بات کرنے کے خواہاں ہیں، البانیز نے اس گفتگو میں ایک بار پھر 2 ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔
آسٹریلین سینٹر فار انٹرنیشنل جسٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر روان عرفات نے کہا کہ البانیز کو نیتن یاہو سے صرف اسرائیل اور آسٹریلیا کے درمیان اسلحے کی دو طرفہ تجارت ختم کرنے، نئی پابندیاں لگانے اور نیتن یاہو کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت بھیجنے پر بات کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں:
روان عرفات نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ وزیر اعظم البانیز کو ایک ایسے شخص کو، جو جنگی جرائم کا ملزم ہے، کسی بھی صورت میں جواز فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
اگرچہ وزیر اعظم البانیز اور وزیر خارجہ وونگ دونوں نے 2 ریاستی حل کی اہمیت پر زور دیا ہے، مگر آسٹریلیا نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے وہ قدم نہیں اٹھایا جو فرانس اور کینیڈا جیسے ممالک اٹھا چکے ہیں۔
منگل کو وزیر اعظم البانیز اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تھا، جو نومبر 2023 کے بعد ان کے درمیان پہلی باضابطہ ریکارڈ شدہ گفتگو تھی۔
مزید پڑھیں:
سڈنی میں ہونے والے مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اتنے زیادہ آسٹریلوی شہری متاثر ہوئے اور وہ اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہتے تھے کہ لوگوں کو خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
تاہم وزیر اعظم البانیز کی لیبر پارٹی کے تحت قائم نیو ساؤتھ ویلز کی ریاستی حکومت نے اس مارچ کو سڈنی ہاربر برج سے گزرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
یہ احتجاج صرف اس وقت ممکن ہو سکا جب ریاستی سپریم کورٹ کی جج بیلِنڈا رِگ نے فیصلہ دیا کہ اس مقام پر مارچ کا مقصد یہ ہے کہ غزہ میں جاری ہولناک صورتحال اور اس کی شدت عالمی سطح پر فوری ردعمل کی متقاضی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شواہد اس مارچ کے لیے عوامی حمایت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
اس مارچ میں ریاستی اور وفاقی سطح کے کئی لیبر وزرا نے بھی شرکت کی، جو وزیر اعظم البانیز کی جماعت کے اندر بڑھتی ہوئی تقسیم کی علامت ہے، ماہرین کے مطابق آسٹریلوی عوام اپنی حکومت کی صرف باتوں پر مشتمل پالیسی سے مایوس ہیں۔
لوگ صرف اسرائیل کے غزہ میں مظالم پر ہی نہیں، بلکہ آسٹریلوی حکومت کی خاموش شراکت داری پر بھی غصے میں ہیں، آسٹریلیا ایف 35 لڑاکا طیاروں کی عالمی سپلائی چین کا حصہ ہے، جو اسرائیل روزانہ غزہ پر استعمال کر رہا ہے اور اس طیارے میں استعمال ہونے والے کچھ پرزے ممکنہ طور پر آسٹریلیا سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلوی عوام آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز پینی وونگ روان عرفات سڈنی وزیر خارجہ