ڈونالڈ ٹرمپ کی ثالثی کی خبر نے مجھے بے چین کر دیا، منوج جھا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہماری فوج نے دہشت گردی کی تجربہ گاہ کو نشانہ بنایا اور عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا، بدلے میں پاکستان نے کیا کیا، سرحدی علاقوں بالخصوص جموں میں کیا کیا۔ اسلام ٹائمز۔ راشتڑیہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر بڑا بیان دیا ہے۔ ایک طرف جہاں انہوں نے بھارتی فوج کی تعریف کی ہے وہیں دوسری طرف انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی بڑی اپیل کی ہے۔ ایک بیان میں منوج جھا نے کہا "میں واضح طور پر مانتا ہوں کہ ہندوستان کبھی بھی جنگ میں شامل نہیں ہوا، جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی لیکن جب ہم لڑے تو بہادری سے لڑے"۔ منوج جھا نے مزید کہا کہ فوج کی بہادری اور جرات کو سلام، ہم نے اپنے شہریوں کی جانیں گنوائیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے تو ٹھیک ہے لیکن کیا پیغام گیا یا نہیں، کیونکہ ہم مستقبل میں اپنے شہریوں کی جان نہیں گنوانا چاہتے۔
رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ ہماری فوج نے دہشتگردی کی تجربہ گاہ کو نشانہ بنایا اور عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا، بدلے میں پاکستان نے کیا کیا، سرحدی علاقوں بالخصوص جموں میں کیا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو چیز پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ڈی جی ایم او پاکستان نے فون کیا اور بات ہوئی تو یہ حیرت انگیز ہے کہ پہلا ٹوئٹ ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان جیسے ملک کے بارے میں کررہے ہیں، وہ ثالثی کر رہے تھے، اس نے مجھے بے چین کردیا۔ منوج جھا نے کہا کہ میں اکیلا نہیں ہوں، آج بہت سے لوگ 1971ء کو یاد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے درخواست کروں گا کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کریں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی بہادری اور بہادری کے چرچے کے ساتھ پیغام نہ صرف پڑوسی ملک بلکہ پوری دنیا تک جانا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: منوج جھا نے نے کہا کہ کو نشانہ انہوں نے کیا کیا
پڑھیں:
ٹرمپ قابل قبول نہیں!
اسلام ٹائمز: ممدانی کے حامیوں کو بے وقوف قرار دے کر اور اگر نیویارک شہر کا بجٹ منقطع کر دینے کی دھمکی دے کر، ٹرمپ نے امریکہ اور نیویارک میں اپنی موجودہ پوزیشن کے بارے میں مؤثر انداز میں ایک اہم بیان دیا تھا، کیونکہ وہ اس شہر سے وائٹ ہاؤس تک پہنچا تھا۔ بات ٹرمپ اور ٹرمپ پسندوں کو "نہیں" کہنے تک محدود نہیں۔ اب امریکی سیاسی اور سماجی میدان میں ٹرمپ مخالفت رجحان غالب ہوچکا ہے اور اس غلبے کو احتجاجی مارچوں اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تحریر: محمد کاظم انبار لوہی
1۔ صرف دو ہفتے پہلے، 50 ریاستوں اور 2700 شہروں میں لاکھوں امریکی سڑکوں پر نکل آئے اور ٹرمپ سے کہا؛ "ہمیں بادشاہ نہیں چاہیئے۔" سڑک پر "نو ٹو ٹرمپ" کا بیلٹ باکس پر کیا اثر ہوتا ہے، اس کا اندازہ نیویارک کے عوام کے ووٹوں اور زہران ممدانی کی جیت سے ہونا چاہیئے۔ نیویارک سٹی یہودی سرمایہ داروں کا مرکز ہے، امریکہ اور دنیا میں رائے عامہ بنانے کا اصلی مقام اور میڈیا کی نگرانی کا مرکز ہے۔ نیویارک صہیونی لابی کا اہم ترین مقام ہے۔ اب اس شہر کے عوام نے ایسے شخص کو ووٹ دیا ہے، جو صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف سب سے زیادہ واضح موقف رکھتا ہے اور وہ انتخابات سے پہلے کہہ چکا ہے کہ اگر نیتن یاہو نیویارک آیاتو وہ اسے گرفتار کریں گے۔
ممدانی کی جیت اسرائیل کے جنگی جرائم سے عوامی نفرت کی علامت ہے۔ نیویارک میں بیس لاکھ سے زائد یہودی رہتے ہیں اور مقبوضہ علاقوں کے بعد یہ یہودیوں کے اجتماع کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شیعہ مسلمان کا نہ کہ عیسائی یا یہودی کا اکثریتی ووٹ لینا ایک ایسا پیغام ہے، جو "ٹرمپ کو نہیں" کے پیغام سے بھی زیادہ اہم ہے۔ امریکہ میں تازہ ترین سروے بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے حامیوں سے زیادہ مخالفین ہیں اور نوجوانوں میں یہ مخالفت بہت زیادہ ہے۔
2۔ زہران ممدانی نے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی ہے، ان کے والد کولمبیا میں سیاسیات کے پروفیسر رہے ہیں۔ ممدانی دو سال سے سائنسی حسابات کی بنیاد پر اپنی فتح کے لیے میدان تیار کر رہا تھا۔ ان دو سالوں میں وہ نیویارک میں ایک مسجد سے دوسرے مسجد میں جاکر تقریریں کرتا۔ نیویارک کے مسلمانوں نے انتخابی نتائج پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، اس کا سہرا نیویارک کی اسلامک سوسائٹی اور ان کے والد کے سر ہے۔ آج کا امریکی معاشرہ مکمل طور پر دو قطبی ہے۔ وہ مخالف قطب ٹرمپ پر اپنی پوزیشن قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ممدانی سائبر اسپیس اور معاشی انصاف کے میدان میں ایک شفاف اور غیر مبہم پیغام کو ڈیزائن کرکے نوجوانوں کو راغب کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ نوجوانوں میں صیہونی حکومت کے مخالفین اور حامیوں کے تناسب سے پوری طرح واقف تھے، اسی لئے ممدانی نے یروشلم اور نیتن یاہو کی غاصب حکومت کے خلاف انتہائی واضح موقف اختیار کیا۔ انہوں نے کم از کم 10 انتخابی وعدے کیے ہیں، جو انہوں نے نیویارک کے میئر کی حیثیت سے اپنے دور میں نافذ کرنے ہیں۔
ممدانی کے حامیوں کو بے وقوف قرار دے کر اور اگر نیویارک شہر کا بجٹ منقطع کر دینے کی دھمکی دے کر، ٹرمپ نے امریکہ اور نیویارک میں اپنی موجودہ پوزیشن کے بارے میں مؤثر انداز میں ایک اہم بیان دیا تھا، کیونکہ وہ اس شہر سے وائٹ ہاؤس تک پہنچا تھا۔ بات ٹرمپ اور ٹرمپ پسندوں کو "نہیں" کہنے تک محدود نہیں۔ اب امریکی سیاسی اور سماجی میدان میں ٹرمپ مخالفت رجحان غالب ہوچکا ہے اور اس غلبے کو احتجاجی مارچوں اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔