جرمن اسرائیلی سفارتی تعلقات کے قیام کی سالگرہ، غزہ کی جنگ کے سائے میں
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) ٹھیک چھ عشرے قبل 12 مئی 1965ء کو جرمنی اور اسرائیل نے طویل عرصے پر محیط کوششوں اور تیاریوں کے بعد باہمی سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ یہ ایک نازک وقت تھا۔ دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے محض دو دہائیاں ہی بیتی تھیں۔ تب نازی جرمن دور میں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کی یادیں دونوں طرف تازہ تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 80 برس بعد، یعنی آج بھی اسرائیل اور جر منی کے باہمی تعلقات انتہائی اہم مگر مشکل بھی ہیں۔آج پیر 12 مئی کو اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ جرمن دارالحکومت برلن میں ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کے قیام کی سالگرہ کے سلسلے میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اسرائیلی صدر اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر اشٹائن مائر کے ساتھ جنوب مغربی برلن کے علاقے گرونے والڈ میں ''پلیٹ فارم 17‘‘ نامی ہولوکاسٹ میموریل کا دورہ کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
نازی دور میں تقریباً دس ہزار یہودیوں کو اس ٹرین اسٹیشن سے حراستی کیمپوں میں بھیجا گیا تھا۔اسرائیلی صدر 100 سے زائد جرمن اور اسرائیلی نوجوانوں سے ملاقات بھی کریں گے۔ آئزک ہرزوگ کو پوری طرح اندازہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ پہلے شروع ہونے والی غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے خاص طور پر جرمن نوجوانوں میں سامیت دشمن جذبات میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
جرمنی اور اسرائیل کے صدور بعد ازاں اکٹھے اسرائیل جائیں گے اور غزہ پٹی کی سرحد پر واقع زرعی آباد کاروں کی ایک اسرائیلی بستی کا دورہ کریں گے۔سابق چانسلر میرکل نے اسرائیلی پارلیمان میں کیا بیان دیا تھا؟
سابق جرمن چانسلر اور کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی لیڈر انگیلا میرکل نے 2008 ء میں اپنے اسرائیل کے دورے کے دوران اسرائیلی پارلیمان 'کنیسٹ‘ میں ایک تقریر کی تھی۔
انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے جرمنی پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک مخصوص اصطلاح استعمال کی تھی۔ میرکل نے اسرائیل کے ضمن میں جرمنی پر عائد سیاسی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے ''ریزن آف اسٹیٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ میرکل کے خیال میں جرمنی پر اسرائیلی ریاست کے وجود اور اس کی سلامتی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔''ریزن آف اسٹیٹ‘‘ یا ''ریاست کی وجہ‘‘ ایک سیاسی فقرہ ہے، قانونی نہیں۔ لیکن انگیلا میرکل کے بعد جرمنی کے چانسلر رہنے والے اور ان سے پہلے اس عہدے پر فائز رہنے والے زیادہ تر رہنماؤں نے جرمنی کی اسرائیل کے تناظر میں اسی سیاسی ذمہ داری کو بنیادی اصول بنا کر اس کے مطابق کام کیا اور اسے جاری رکھا۔
حال ہی میں جرمنی کے نئے وفاقی چانسلر کا منصب سنبھالنے والے کرسچن ڈیموکریٹ لیڈر فریڈرش میرس اب اپنی چانسلرشپ کے ابتدائی دنوں میں ہی اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اور ماضی کے تمام جرمن چانسلروں کی طرح میرس بھی اسرائیل کے سلسلے میں جرمنی پر عائد ہونے والی خصوصی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔
جرمن سیاست دانوں کا مستقل موقف
غزہ کی جنگ اوراسرائیلی اقدامات پر تمام تر تنقید کے باوجود، جرمن سیاست دانوں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یورپی یونین، امریکہ، جرمنی اور کئی دوسرے ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
اس حملے میں تقریباً 1200 لوگ مارے گئے تھے، اور تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔عملی طور پر تاہم جرمنی کے لیے اپنے سیاسی بیانیے پر زیادہ سے زیادہ زور دیتے ہوئے اسے پورا کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات پر جرمنی میں بھی تنقید بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل مارچ کے آغاز سے ہی غزہ پٹی کو امداد کی ترسیل روکے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں غزہ پٹی میں مزید بھوک اور موت منڈلا رہی ہیں۔
حماس کے زیر انتظام اس فلسطینی علاقے میں محکمہ صحت کے حکام کے اعداد و شمار، جنہیں بین الاقوامی اداروں کے مطابق قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے، کے مطابق اب تک غزہ کی جنگ میں، جو اسرائیل نے 2023 ء میں حماس کے حملوں کے فوراﹰ بعد شروع کی تھی، اب تک 52,600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ نومبر 2024ء میں دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور اسرائیلکے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ سمیت کئی افراد کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔
جرمنی آئی سی سی کے بانی ارکان میں سے ایک ہے اور اگر نیتن یاہو جرمنی آئے تو انہیں گرفتار کرنا پڑے گا۔اس کے باوجود رواں سال فروری میں ہونے والے جرمن پارلیمانی انتخابات کے ایک دن بعد، فریڈرش میرس نے نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ بطور چانسلر وہ ''اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ نیتن یاہو جرمنی کا دورہ کر سکیں اور جرمنی میں گرفتار کیے بغیر دوبارہ اپنے ملک واپس چلے جائیں، کوئی راستہ اور طریقہ تلاش کر لیں گے۔‘‘ تاہم میرس نے چانسلر منتخب ہونے کے بعد سے اپنا یہ جملہ نہیں دہرایا۔
ادارت: مقبول ملک، عدنان اسحاق
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور اسرائیل نے اسرائیل اسرائیل کے غزہ کی جنگ کا دورہ کر نیتن یاہو اور اس کے بعد کی تھی
پڑھیں:
ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز
ایران اور اسرائیل کے درمیان جون میں ہونے والی بارہ روزہ خونریز جھڑپوں کے بعد ایک نیا خوفناک باب کھل گیا ہے۔ عرب خبر رساں ادارے ”العریبیہ“ نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں درجنوں ایرانی جوہری سائنس دانوں کی ہلاکت کے بعد ایران نے اپنے باقی ماندہ اور نئے سائنس دانوں کو ملک بھر سے غائب کر کے خفیہ مقامات پر پہنچا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ مقامات یا تو تہران کے محفوظ ترین علاقے ہیں یا شمالی ایران کے ساحلی شہروں میں ایسی محفوظ پناہ گاہیں جہاں تک عام شخص کا پہنچنا ناممکن ہے۔
رپورٹ میں ایک سینئر ایرانی اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’بیشتر سائنس دان اپنے گھروں اور جامعات کی ملازمتوں کو اچانک ترک کر چکے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ان کی جگہ ایسے افراد کو بٹھا دیا گیا ہے جن کا جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں، تاکہ دشمن کو کچھ پتا نہ چل سکے‘۔
دوسری جانب برطانوی اخبار ”دی ٹیلی گراف“ کے مطابق، اسرائیلی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے جوہری سائنس دانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کر لی ہے جو مارے گئے ماہرین کا کام سنبھال سکتی ہے۔
ماہرین نے ان سائنس دانوں کو ”چلتی پھرتی لاشوں“ کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو حفاظتی حصار میں رکھا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ اسرائیلی نشانے پر ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے 24 گھنٹے سیکورٹی، بکتر بند گاڑیاں اور خفیہ رہائش گاہیں فراہم کی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ایران نے جوہری تحقیق کے ڈھانچے کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ ہر مرکزی سائنس دان کے ساتھ کم از کم ایک نائب موجود ہو، اور تمام ماہرین دو یا تین افراد کے گروپ میں کام کریں تاکہ اگر ایک ہدف بن جائے تو دوسرا فوراً اس کی جگہ لے سکے۔
ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی خفیہ ادارے کو خدشہ ہے کہ بچ جانے والے کچھ ماہرین اب براہِ راست ایران کے جوہری اسلحہ سازی کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں دھماکہ خیز مواد، نیوٹرون فزکس اور وار ہیڈ ڈیزائن کے ماہر شامل ہیں۔ یہ شعبے کسی بھی ملک کو جوہری بم بنانے کے آخری مرحلے تک پہنچا سکتے ہیں۔
اسرائیلی دفاعی انٹیلی جنس کے ایران اسٹریٹیجی ڈپارٹمنٹ کے سابق سربراہ دانی سیترینووچ نے خبردار کیا ہے کہ ’یہ سائنس دان اپنے ساتھیوں کے انجام کو دیکھ چکے ہیں۔ اب ان کا راستہ صاف ہے۔ یا تو وہ ایران کو جوہری بم کے قریب لے جائیں گے، یا اسرائیل کے اگلے نشانے بن جائیں گے۔ جو کوئی بھی اس پروگرام پر کام کرے گا، اس کا انجام موت ہوگا یا موت کی دھمکی۔‘
یاد رہے کہ 13 جون کو شروع ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیل نے ایرانی فوجی تنصیبات اور جوہری مراکز پر بڑے حملے کیے۔ اس دوران درجنوں سائنس دان اور فوجی کمانڈر مارے گئے، جبکہ امریکا نے بھی کئی اہم جوہری تنصیبات پر تباہ کن کارروائیاں کیں۔ ایران اب اپنے جوہری دماغوں کو بچانے کی دوڑ میں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسرائیلی ہٹ لسٹ سے بچ سکیں گے؟
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد پٹوار خانوں میں بھرتیوں کا کیس، ڈپٹی کمشنر نے وقت مانگ لیا ایشیا کے امیر ترین آدمی مکیش امبانی کو اپنی کمپنی سے کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ آسٹریلیا کا ستمبر میں جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان ترکیہ سمیت مختلف ممالک میں اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ غزہ میں شہید الجزیرہ کے بہادر صحافی انس الشریف کا آخری پیغام، پڑھنے والی ہر آنکھ اشکبار غزہ کے معروف صحافی انس الشریف سمیت الجزیرہ کے 5 ارکان اسرائیلی حملے میں شہید غزہ پر فوجی قبضے کے منصوبے پر پھوٹ، وزیر خزانہ نے نیتن یاہو کی حکومت گرانے کی دھمکی دیدیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم