امریکا کی ایران پر نئی پابندیاں، جوہری مذاکرات کے دوران سخت اقدام
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکا نے ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات کے دوران تین ایرانی شہریوں اور ایک ادارے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، امریکی حکومت نے جن افراد اور ادارے پر پابندیاں لگائی ہیں، ان کے تعلقات ایران کی “آرگنائزیشن آف ڈیفینسو انوویشن اینڈ ریسرچ” (SPND) سے ہیں، جو ایران کے متنازعہ تحقیقی و دفاعی منصوبوں میں سرگرم ہے۔
پابندیوں کے تحت ان افراد اور ادارے کے امریکا میں موجود تمام مالی اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، اور ان سے کسی قسم کا تجارتی لین دین بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بیان میں کہا کہ ایران مسلسل جوہری ہتھیاروں اور ان کے نظامِ ترسیل سے متعلق منصوبوں پر کام کر رہا ہے، جو عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
یہ نئی پابندیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا چوتھا دور گزشتہ روز مکمل ہوا، جس کا مقصد ایک نیا معاہدہ طے کرنا ہے تاکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھا جا سکے۔
ایران کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایرانی صدر کی امن کی پیشکش، امریکا سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران کے صدر مسعود پزیشکیان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ تنازعات کو بین الاقوامی فریم ورک کے تحت بات چیت سے حل کرنے کے لیے تیار ہے، ایران کی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق صدر پزیشکیان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ٹیلیفونک گفتگو کی۔
ایرانی صدر نے سعودی ولی عہد سے بات کرتے ہوئے کہاہمیں امید ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہوں گے اور ان کے نتائج مثبت ہوں گے،ایران بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار میں منصفانہ اور معقول معاہدے چاہتا ہے جو ایرانی قوم کے ناقابل تنسیخ حقوق کا تحفظ کریں اور خطے میں استحکام اور ترقی میں مدد دیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہماری کوئی غیر ضروری یا غیر قانونی مطالبات نہیں، ہم صرف اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوست و برادر ممالک کی حمایت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد بن سلمان نے ایران کے خلاف اسرائیل کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب یا خطے کا کوئی اور ملک ایران کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں ہونے دے گا، نہ ہی امریکی اڈوں سے ایران پر کوئی کارروائی کی جائے گی،ہم ایران کے جوابی حملے کے حق کو سمجھتے ہیں۔
صدر پزیشکیان نے اماراتی صدر بن زاید النہیان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم مل کر، غیر ملکی مداخلت کے بغیر، تعاون، امن اور استحکام کے ماحول میں خطے کی تعمیر کر سکتے ہیں،ہم ان تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں جو خطے میں استحکام اور اقوام کی بھلائی کے لیے ہوں۔
واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران میں کئی فوجی اور جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے تھے، جن کا الزام تہران پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کے تناظر میں لگایا گیا، ایران نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی، بعد ازاں امریکا بھی جنگ میں شامل ہو گیا اور گزشتہ اتوار کو تین ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔