امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
ریاض: سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سٹریٹجک اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔
عرب نیوز کے مطابق اس شراکت داری میں توانائی، معدنیات اور دفاع کے شعبوں کے معاہدے شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کا محور سعودی مسلح افواج کی صلاحیتوں کو جدید بنانا ہے۔ اس کے ساتھ سعودی خلائی ایجنسی اور ناسا کے درمیان ایک معاہدہ بھی شامل ہے
دیگر معاہدوں میں معدنی وسائل کے بارے میں ایک مفاہمتی یادداشت، محکمہ انصاف کے ساتھ ایک معاہدہ، اور متعدی بیماریوں پر تعاون شامل تھا۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ اور سعود عرب کے درمیان مذاکرات ہوئے۔
ریاض کے قصر الیمامہ میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات، مختلف شعبوں میں سٹریٹیجک شراکت داری کو فروغ دینے کے طریقوں اور خطے و دنیا سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قبل ازیں صدر ٹرمپ منگل کو سعودی عرب پہنچے، جسے انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کا ایک تاریخی دورہ قرار دیا، جس میں غزہ پر ہنگامی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ بڑے تجارتی معاہدے بھی شامل ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دارالحکومت ریاض کے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر صدر ٹرمپ کا گرمجوشی سے استقبال کیا، جہاں سے ان کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ شروع ہوا۔
اس کے بعد دونوں رہنما ایئرپورٹ کے ایک عظیم الشان ہال میں گئے، جہاں ٹرمپ اور ان کے معاونین کو روایتی عربی قہوہ پیش کیا گیا، جو تقریباً لباس میں پٹکے پہنے حاضرین نے سرو کیا۔
جب ایئر فورس ون سعودی دارالحکومت کے قریب پہنچی تو رائل سعودی ایئر فورس کے ایف-15 طیاروں نے اسے اعزازی سکارٹ فراہم کیا۔ ٹرمپ اور شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی محل میں ظہرانے میں بھی شرکت کی، جہاں معزز مہمانوں اور مشیروں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
بعد میں، ولی عہد شہزادہ ٹرمپ کے اعزاز میں ایک رسمی عشائیہ دیں گے۔ ٹرمپ منگل کے روز امریکی، سعودی سرمایہ کاری کانفرنس میں بھی شرکت کرنے والے ہیں۔
غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے پہلے بڑے غیر ملکی دورے پر گہرا اثر ڈالے گی لیکن ایک مثبت پیش رفت اس وقت ہوئی جب اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو عین اس وقت ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا جب صدر اپنے طیارے میں سوار ہو رہے تھے۔
ٹرمپ نے حالیہ ہفتوں میں غزہ کی جنگ ختم کرنے کی اپنی کوششوں پر بظاہر سرد مہری دکھائی ہے، حالانکہ منصب سنبھالنے سے پہلے وہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ وہ اس تنازع کو فوری طور پر ختم کر سکتے ہیں۔
وہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ غزہ، یمن میں حوثیوں پر حملوں اور ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کے طریقے پر بڑھتے ہوئے اختلافات کا شکار بھی دکھائی دیے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان ایران کے جوہری عزائم پر ہونے والی بات چیت میں ’بہت اچھی پیش رفت‘ ہو رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی دوٹوک کہا کہ ایران کو ’جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شراکت داری کے درمیان ولی عہد کے ساتھ
پڑھیں:
ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر، آج سعودی عرب پہنچے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس تین روزہ دورے کے دوران سعودی عرب کے بعد وہ قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھی جائیں گے۔ تاہم اس دورے کے دوران ان کا اسرائیل جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی ''مشرق وسطیٰ میں یہ تاریخی واپسی‘‘ ہے، جو ان کے دوسرے دور صدارت کا پہلا سرکاری دورہ ہے، جس دوران وہ ''تعلقات کو مضبوط بنانے‘‘ پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ خلیج کے خطے میں کاروباری اور سفارتی شراکت داروں سے ملاقاتیں کریں گے اور ساتھ ہی خطے میں امریکی تجارتی تعلقات کو بھی مزید گہرا کریں گے۔
(جاری ہے)
وائٹ ہاوس کے بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ دورہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔
اس دورے کے دوران غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے کے مستقبل کا سوال بھی ممکنہ طور پر سامنے آئے گا۔
ٹرمپ نے ''مشرق وسطیٰ کا رویرا‘‘ بنانے کے لیے اس علاقے کی آبادی کو کہیں اور منتقل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ اس کے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کے بارے میں جاری بات چیت بھی ٹرمپ کی امریکی شراکت داروں کے ساتھ مکالمت کے ایجنڈے میں شامل ہو گی۔جرمن چانسلر نے ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ’مکمل طور پر مسترد‘ کر دیا
اگرچہ صدر ٹرمپ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو فوری طور پر ختم کرانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم حماس نے ان کی خطے میں آمد سے قبل جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیر کے روز اسرائیلی نژاد امریکی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو 19 ماہ تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا۔
ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے سے وابستہ امیدیںامریکی صدر کا تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔
ٹرمپ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے امریکی ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے اہداف میں سے ایک اسرائیلی سعودی تعلقات کو معمول پر لانا فی الحال دور دکھائی دیتا ہے۔
ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں کروائے تھے، عرب ریاستوں کے ذریعے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کی تھی، جن میں سے کچھ ممالک پہلے ہی یہ اقدام کر چکے ہیں۔
تاہم سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر کسی بھی پیش رفت کے لیے غزہ پٹی میں جنگ کا خاتمہ اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابل اعتبار راستہ پیشگی شرائط ہیں۔
سعودی عرب کے عملی حکمران، ولی عہد محمد بن سلمان سات اکتوبر 2023ء کے مسلح حملے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب تھے۔
اس دن اسرائیل پر حماس کے حملوں کو بڑے پیمانے پر اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس دورے سے امریکہ چین کے سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی امید بھی رکھتا ہے۔
امارات کے ساتھ 1.4 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے سودوں کی منظوریصدر ٹرمپ کے دورے سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہتھیاروں کے دو سودوں کی منظوری دے دی تھی۔
یہ دوطرفہ سودے، جن میں فوجی طیاروں اور آلات کی فروخت بھی شامل ہیں، تقریباً 1.4 بلین ڈالر مالیت کے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف پولیٹیکل ملٹری افیئرز نے پیر کے روز کہا کہ اس سودے میں چھ چینوک ہیلی کاپٹر اور دیگر آلات بھی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے، ''متحدہ عرب امارات ان اثاثوں کو تلاش اور بچاؤ، ڈیزاسٹر ریلیف، انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرے گا۔‘‘
اگر امریکی کانگریس اس سودے کو روکنا چاہے، تو اس کے پاس 30 دن کا وقت ہے۔
متحدہ عرب امارات پر سوڈان میں باغیوں کو مسلح کرنے کا الزام بھی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات پر الزام لگایا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوڈان کے نیم فوجی گروپ آر ایس ایف کو چینی ہتھیار فراہم کر رہا ہے، جن سے وہاں خانہ جنگی کو ہوا مل رہی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے ایمنسٹی کے دعووں کی سختی سے تردید کی ہے۔
تاہم اقوام متحدہ سمیت کئی اداروﺍں کے ماہرین نے امارات پر گزشتہ ایک سال کے دوران آر ایس ایف کو مسلح کرنے کا الزام لگایا ہے، جو دو سال سے زیادہ عرصے سے سوڈانی فوج کے خلاف لڑ رہی ہے۔
ادارت: مقبول ملک