اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس میں  جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے،پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے،ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا،منیر اے ملک نے کہا جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس  کی سماعت ہوئی، وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ججز کی سنیارٹی عدلیہ کی آزادی کے ساتھ منسلک ہے،جسٹس شاہد بلال نے کہاکہ ماضی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3جج اسلام آباد ہائیکورت کے چیف جسٹس بنے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سنیارٹی کا تعین کون کرے گا؟ وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس کریں گے۔

امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکیں گے: ایرانی صدر

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ چیف جسٹس کی جانب سے سنیارٹی تعین کا اختیار انتظامی ہے،چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا؟وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کیلئے رجوع کرے گا، اسلام آباد اور دیگر ہائیکورٹس میں تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مختلف ہوتی ہے،ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی جج مستقتل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے،پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے،ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا،منیر اے ملک نے کہا جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔

مرغی کی قیمت میں بڑا اضافہ ہو گیا  

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے منیر اے ملک نے کہا عدلیہ کی ا زادی کے جج کا حلف چیف جسٹس نے کہاکہ ہوتا ہے

پڑھیں:

عدالتیں ہتھیار کیوں بن گئیں؟ ہمیں وکٹ سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟  پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور سینیٹ میں پارٹی لیڈر علی ظفر نے حالیہ اجلاس میں حکومت کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ اپوزیشن کے ارکان کو اسمبلی سے نکال دیا جائے۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے کارکنوں پر سزاوں کی بارش بیچی گئی، جھوٹے مقدمات میں ڈوبا کر الیکشن کمیشن نے ہماری نااہلی پر مہر لگا دی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ آرٹیکل 63(1)(ہ) ڈاکٹریٹ کے فیصلے پر نااہلی کا اطلاق نہیں ہوتا، جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا اثر نہیں ہوتا۔
علی ظفر نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی تیزی میں بے بنیاد نااہلیوں  کے ذریعے اپوزیشن کو خاموش کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے  انتقامی کارروائی کا حصہ ہیں اور عوام کی آواز سے حکومت کو خوف ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ   عوامی نمائندے ہیں، ناخفشل سزاوں سے ووٹر کو سزا دینا سیاسی زیادتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے جواباً کہا آپ جو کچھ کل کیے، آج اسی کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اس دوران ایوان میں لفظی پلٹبرزم کی صورت پیدا ہو گئی، دونوں اطراف سے تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
فیصلے کے قانونی پہلو پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سزا نامے کے جاری ہوتے ہی نااہلی ہو جاتی ہے، چاہے بعد میں ضمانت کیوں نہ مل جائے۔ انہوں نے مختلف مقدمات، جیسے **حنیف عباسی کی عمر قید یا چیئرمین سینٹ کے بیٹے کی گرفتاری اور حمزہ شہباز کا قید میں رہنا** جیسے واقعات کا ذکر بھی کیا۔ یہ سینیٹ میں بظاہر معاملہ سیاسی طاقت اور قانون کے استعمال کے گرد گھومنے لگا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور فرائض کی حدود کے حوالے سے آئینی مفاہمت کا بحران ہے۔انصاف طاقتوروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے تو حکومتیں گرانے والی تحریکیں جنم لیتی ہیں، حکومت نے عدلیہ کی ساکھ اور خود مختاری کونقصان پہنچایا۔

 

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • نئی دہلی: پاکستانی ہائی کمیشن میں یوم آزادی کی تقریب، پرچم کشائی کی گئی
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی کامیابی پر دنیا حیران رہ گئی: مریم نواز
  • ثابت قدم رہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، چیف جسٹس کا جشن آزادی پر پیغام
  • کچھ بدلنے والا نہیں ہے!
  • معرکہ حق کے بعد کشمیریوں کے حوصلے بلند، آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں، پیر علی رضا بخاری
  • ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا
  • عدالتیں ہتھیار کیوں بن گئیں؟ ہمیں وکٹ سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟  پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
  • عمران خان کی 14 اگست کو احتجاج کی کال، پی ٹی آئی قیادت نے انکار کردیا
  • کاش پاکستان کے پاس فیلڈ مارشل جیسا کوئی جمہوری لیڈر بھی ہوتا: فیصل واؤڈا
  • ایک فلسطینی سیاح نے پاکستان میں کیا دیکھا؟