WE News:
2025-08-15@22:39:05 GMT

پاک افغان تعلقات میں بہتری، تجارت 3 گنا بڑھانے کا ہدف

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

پاک افغان تعلقات میں بہتری، تجارت 3 گنا بڑھانے کا ہدف

پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے بعد پاک افغان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران افغانستان پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا جس سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے اور اس سے باہمی تجارت پر بھی مثبت اثر پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان تعلقات: کیا اسحاق ڈار کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے معاملات حل ہوگئے؟

پاک افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان کی کوششوں اور اسحاق ڈار کے دورے کے بعد دونوں جانب غلط فہمیاں کم ہوئی ہیں اور تعلقات مضبوط ہو گئے ہیں۔

ان کے مطابق حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران افغانستان نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ جبکہ دونوں ممالک چین کے ساتھ مل کر تجارت کو بڑھانے، وسطی ایشیائی ممالک تک روٹ بنانے اور تجارت کو فروغ دینے پر رضامند ہو گئے ہیں۔

پاک افغان تعلقات میں بہتری کا تجارت پر مثبت اثر

پاکستانی اور افغانی وفود کی ملاقاتوں اور تعلقات کے مضبوط ہونے سے پاک افغان تجارت پر بھی مثبت اثر پڑا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں اہم گزرگاہ طورخم میں مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت میں رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے اور اب ڈرائیوروں کو خصوصی اجازت نامہ جاری ہونے کے بعد آمد و رفت میں حائل مسائل بھی ختم ہو گئے ہیں، جس سے تجارت میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ طورخم میں تعینات ایک سرکاری ادارے کے افسر نے بتایا کہ حکومت پاکستان افغان تجارت کو آسان بنانے پر کام کر رہی ہے اور اس میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟

تجزیہ کاروں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی صادق خان طورخم بارڈر پر افغان تجارت سے وابستہ افغان باشندوں سے ملے تھے، جہاں ان کے مسائل سنے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پاک افغان ٹریڈ بلا رکاوٹ جاری ہے۔

روزانہ 300 سے زائد گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوتی ہیں

طورخم پر تعینات حکام کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے بعد تجارت پر اس کے مثبت اثرات پڑے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں جانب خراب تعلقات کی وجہ سے تجارت میں کمی آئی تھی، جو اب بہتر ہو گئی ہے۔

حکام نے روزانہ کے ڈیٹا کے مطابق بتایا کہ اسحاق ڈار کے دورے سے پہلے حالات اچھے نہیں تھے۔ کبھی بارڈر بند تو کبھی ہڑتال، جس کی وجہ سے روزانہ بمشکل 200 گاڑیاں افغانستان جاتی تھیں۔ جبکہ حالیہ دنوں میں اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ طورخم میں حکام کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اب روزانہ 300 سے زائد مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوتی ہیں جبکہ 300 کے قریب گاڑیاں افغانستان سے واپس پاکستان آتی ہیں۔

تجزیہ کاروں نے بتایا کہ مال بردار گاڑیوں میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینر بھی شامل ہیں۔ حکام نے بتایا کہ گزشتہ روز 369 مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوئیں جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ڈیٹا کے مطابق ان میں 34 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، 288 درآمدات اور 13 دیگر شامل تھیں۔ حکام کے مطابق گزشتہ روز افغانستان سے 288 بڑی گاڑیاں پاکستان میں داخل ہوئیں، جن میں 164 خالی تھیں۔

کرم خرلاچی بارڈر کھول دیا گیا

پاکستان نے دونوں جانب کے شہریوں کی سہولت کے لیے قبائلی ضلع کرم میں خرلاچی بارڈر کو تجارت کے لیے کھول دیا ہے اور خرلاچی بارڈر ٹرمینل پر ’پاک افغان دوستی اسپتال‘ کا بھی افتتاح کیا ہے۔

جدید طبی سہولیات سے آراستہ اس اسپتال میں لیبارٹری، فارمیسی، امراضِ قلب کے ٹیسٹ، بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے کی سہولیات موجود ہیں۔ یہ اسپتال خاص طور پر سرحدی علاقوں کے مکینوں اور افغان شہریوں کے لیے طبی سہولتوں کا اہم مرکز ثابت ہوگا۔

تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاق

کچھ دن پہلے افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کابل میں چین کے خصوصی نمائندے جناب یو شیاؤیونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے جناب محمد صادق اور ان کے ہمراہ وفود سے ملاقات کی تھی، جس میں سی پیک کو افغانستان اور دیگر ممالک تک وسعت دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ ملاقات میں افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے مابین پانچویں سہ فریقی ڈائیلاگ کے موضوعات، ان پر عمل درآمد اور آئندہ چھٹی نشست کے انعقاد کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ اسی طرح افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کی آئندہ پانچویں نشست، سیاسی و اقتصادی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کا بحران اور تجارت و ٹرانزٹ میں مشکلات، امارت اسلامی کا وفد پاکستان روانہ

باخبر ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار کے دورے کے دوران پاک افغان ٹریڈ پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے تاجکستان اور دیگر ممالک تک تجارت کو مزید بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔ چین، پاکستان اور افغانستان نے سی پیک روٹ کو خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع سے افغانستان سے منسلک کرنے اور افغانستان میں روٹ بنانے پر بھی اتفاق کیا۔

’پاک افغان ٹریڈ کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں‘

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہاب یوسفزئی کہتے ہیں کہ اب پاکستان اور افغانستان تعلقات کو بہتر بنا کر تجارت کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا۔

شہاب یوسفزئی افغانستان بھی گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت بھی اب سنجیدہ ہے اور تجارت کو بڑھانے پر متفق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ویزے اور دیگر معمولات میں افغان مسائل کو مدنظر رکھ کر بہتری لا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سمجھ گیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ ہی تجارت میں بہتری ہے اور بھارت کے ساتھ چلنا ان کے لیے آسان نہیں۔

پاکستان اور افغانستان کون سی اشیا ایک دوسرے سے منگواتے ہیں؟

افغانستان کے لیے پاکستان ایک اہم تجارتی روٹ ہے اور افغان ٹرانزٹ کی گاڑیاں بھی پاکستان سے گزرتی ہیں۔

پاکستان سے افغانستان سیمنٹ، سریا، ادویات، سبزیاں اور دیگر اشیا برآمد کی جاتی ہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان کو سبزیاں اور پھل درآمد کیے جاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسحاق ڈار کا دورہ افغانستان افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسحاق ڈار کا دورہ افغانستان افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان پاک افغان تعلقات میں اسحاق ڈار کے دورے تعلقات میں بہتری افغانستان میں اور افغانستان افغانستان کے افغانستان سے افغان تجارت نے بتایا کہ میں داخل ہو پاکستان کے اور تجارت اور افغان بڑھانے پر مال بردار ان کے لیے انہوں نے کے مطابق اور دیگر تجارت کو کے ساتھ پر بھی کے بعد ہے اور

پڑھیں:

پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔

سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔

جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔

بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔

تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔

مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘

حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔

آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘

مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔

‘‘

واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔

اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔

اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘

شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔

‘‘

جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔

اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟

شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘

سحر بلوچ

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے: وزیراعظم
  • پاکستان نے جرمنی منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا
  • پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
  • بھارت اور چین کے درمیان 5 سال بعد سرحدی تجارت بحالی پر پیش رفت
  • افغان فنکارہ کے انوکھے فن پارے، دنیا کو پاکستان سے محبت اور خواتین کی خودمختاری کا پیغام
  • پاکستان ،افغانستان اور چین کے وزرائےخارجہ کی کابل میں ملاقات طے
  • جشن آزادی، معرکہ حق کی فتح اور پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کے عزم کا دن ہے، رضوان سعید شیخ
  • صدر زرداری سے آذربائیجان کے سفیر کی ملاقات‘ تعلقات مزید مستحکم کرنے پر زور
  •    پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری، موڈیز نے آؤٹ لک کو بھی ’مستحکم‘ قرار دیدیا 
  • صدر سے وزیر مذہبی امور‘ مراکشی سفیر کی ملاقاتیں‘ تعلقات بڑھانے پر گفتگو