غزہ میں اسرائیلی فوج کے تازہ حملوں میں 94 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مئی 2025ء) فلسطینی طبی حکام کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں غزہ پٹی کے جنوبی علاقے خان یونس میں گھروں اور خیموں پر اسرائیلی فضائی حملوں میں ہوئیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں مقامی صحافی حسن صمور بھی شامل ہیں، جو حماس کے زیر انتظام اقصیٰ ریڈیو اسٹیشن کے لیے کام کرتے تھے اور ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے ساتھ ان کے خاندان کے 11 افراد بھی مارے گئے۔
ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ
حماس نے آخری امریکی اسرائیلی یرغمالی کو رہا کر دیا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے فوری طور پر ان ہلاکتوں کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
(جاری ہے)
حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل آگ کی آڑ میں مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں، جن میں دوحہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے سفیر، قطر اور مصری ثالث شامل ہیں۔
'نکبہ سے زیادہ مشکل حالات‘اسرائیل کی طرف سے تازہ حملے اس دن کیے گئے جب فلسطینی 'یوم نکبہ‘ یا 'تباہی‘ کی یاد مناتے ہیں، جب 1948 کی مشرق وسطیٰ جنگ کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں اور دیہات سے نکلنا پڑا یا انہیں زبردستی نکال دیا گیا تھا۔
موجودہ جنگ کے سبب فلسطینی علاقے غزہ پٹی کی 2.
غزہ شہر میں متعدد بار بے گھر ہونے والے ایک فلسطینی احمد حماد کے مطابق، ''اس وقت ہم جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ 1948ء کے یوم نکبہ سے بھی بدتر ہے۔‘‘
احمد حماد کا مزید کہنا تھا، ''سچ یہ ہے کہ ہم مسلسل تشدد اور نقل مکانی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔
ہم جہاں بھی جاتے ہیں، ہمیں حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موت ہمیں ہر جگہ گھیرے ہوئے ہے۔‘‘ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شدتفلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ منگل کے روزصدر ٹرمپ کی جانب سے خلیجی ریاستوں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے شروع کرنے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
شعبہ صحت کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ تازہ ترین حملے بدھ کے روز غزہ پر ہونے والے ان حملوں کے بعد کیے گئے ہیں، جن میں کم از کم 80 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دوحہ میں ٹرمپ کے سفارت کاروں اور قطر اور مصر کے ثالثوں کی قیادت میں اسرائیل اور حماس کے درمیان نئے بالواسطہ سیزفائر مذاکرات میں ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے بدلے غزہ میں باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہے، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو عبوری جنگ بندی کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ صرف حماس کے خاتمے کے بعد ہی ختم ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا ہے، ''ایک ایسے وقت پر جب ثالث مذاکرات کو درست راستے پر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، صیہونی قابض (اسرائیل) ان کوششوں کا جواب بے گناہ شہریوں پر فوجی دباؤ ڈال کر دے رہا ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، ''اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ایک ختم نہ ہونے والی جنگ چاہتے ہیں اور انہیں یرغمالیوں کی قسمت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
‘‘ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 53 ہزار سے بڑھ گئیحماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے جمعرات 15 مئی کے روز کہا کہ 18 مارچ کو اسرائیل کے حملے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 2,876 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر 2023ء کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب 53,010 تک پہنچ گئی ہے۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا، جس میں تقریبا 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکہ کی حمایت یافتہ انسانی حقوق کی ایک تنظیم امداد کی تقسیم کے منصوبے کے تحت مئی کے آخر تک غزہ میں کام شروع کر دے گی، لیکن اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس وقت تک اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کو فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے۔
دو مارچ کے بعد سے غزہ کو کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی اور بھوک کے مسئلے پر نظر رکھنے والے ایک عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں پانچ لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ، مقبول ملک
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ میں اسرائیل افراد ہلاک حملوں میں کے بعد سے کے مطابق رہے ہیں ہلاک ہو حماس کے
پڑھیں:
اسرائیل صمود فلوٹیلا سے گرفتار افراد کیخلاف کیا کارروائی کرے گا؛ حکام نے بتادیا
صمود فلوٹیلا کے قافلے میں 40 کشتیاں شامل ہیں جن میں دنیا بھر سے 500 سے زائد افراد سوار ہیں اور ان کی منزل غزہ میں محصور فلسطینیوں کو خوراک پہنچانا تھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی بحریہ نے ان کشتیوں کو غزہ پہنچنے سے پہلے ہی روک لیا اور 200 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
حراست میں لیے گئے افراد میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل ہیں جو بطور رضاکار کشتی میں سوار تھے۔ دیگر اسیروں میں معروف سماجی کارکن، وکلا اور خواتین بھی شامل ہیں۔
Already several vessels of the Hamas-Sumud flotilla have been safely stopped and their passengers are being transferred to an Israeli port.
Greta and her friends are safe and healthy. pic.twitter.com/PA1ezier9s
اسرائیلی بحریہ کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود گلوبل صمود فلوٹیلا کی 30 کشتیاں اب بھی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہیں اور اس وقت غزہ سے 85 کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گرفتار کیے گئے 200 سے زائد سماجی کارکنوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔
اسرائیلی حکام نے میڈیا کو بتایا ہے کہ انتباہ کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی کی خلاف ورزی پر ان افراد کو حراست میں لے کر اسرائیل کی سرزمین پر لایا جائے گا۔
View this post on InstagramA post shared by Global Sumud Flotilla (@globalsumudflotilla)
حکام کے بقول اسرائیل میں ضابطے کی کارروائی کے بعد ان افراد کو ان کے اپنے اپنے ملک بھیج دیا جائے گا۔
اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ کشتیوں کو روکنے اور گرفتاریوں کے عمل کے دوران فوجی نہایت نرمی سے پیش آٗئے اور کوئی غیر قانونی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ امداد کسی بین الاقوامی تنظیم کے ذریعے بھی بھیجی جا سکتی تھی۔ اس کے لیے یہ راستہ چننا ہمارے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
UPDATE – OCTOBER 2ND, 3:20 GMT+3
30 boats still sailing strong on their way to Gaza, just 46 nautical miles away, despite the incessant aggressions from the Israeli occupation navy. #BreakTheSiege #FreePalestine #SailToGaza #GlobalMovementToGaza #glob… https://t.co/5vQjn0u0iS
اسرائیلی حکام نے الزام عائد کیا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حماس کی مدد کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گلوبل صمود فلوٹیلا کئی یورپی اور عرب ممالک کے کارکنوں کی مشترکہ کاوش ہے، جو اسرائیل کی غزہ پر عائد سخت ناکہ بندی توڑنے کے لیے عالمی سطح پر سرگرم ہے۔