غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ میں مذکرات جاری ہیں.امریکی محکمہ خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 15 مئی ۔2025 )امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت دوحہ میں بدستور جاری ہے‘ اسرائیل اور حماس پر دباوڈالنے کے لیے اپنے تمام ذرائع استعمال کریں گے تاکہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے. محکمہ خارجہ کے ترجمان برائے مشرق وسطی سموئیل وربرگ نے عرب نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ واشنگٹن کے مفاد میں ہے کہ غزہ کی جنگ ختم ہو انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل اور حماس پر دباﺅ ڈالنے کے لیے اپنے تمام ذرائع استعمال کریں گے تاکہ جنگ کا خاتمہ ہو سکے.
(جاری ہے)
سموئیل وربرگ نے کہا کہ ہمارے دروازے اسرائیل کے لیے کھلے ہیں اور ہم انہیں اپنی سفارشات سے متعلق واضح پیغامات بھیجتے رہتے ہیں ترجمان زور دیا کہ ہماری ترجیح ہمیشہ ہمارے قومی مفادات ہوتے ہیں خواہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہی کیوں نہ ہوں دوسری جانب قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میںکہا کہ غزہ پر رواں ہفتے کیے گئے اسرائیلی حملے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا. اسرائیل نے پیر کے روز غزہ پر اپنی فضائی کارروائیاں اس وقت عارضی طور پر روک دی تھیں جب حماس نے امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی فوجی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کیا تاہم منگل کے روز اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر حملے شروع کر دیے اسی سلسلے میں ایک اسرائیلی وفد گزشتہ روز دوحہ پہنچا ہے تاکہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے. حماس کے دو اعلیٰ عہدے داروں نے تصدیق کی ہے کہ دوحہ میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت ابھی تک جاری ہے اور ان کے مطابق اس میں پیش رفت بھی ہوئی ہے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں گزشتہ چند ہفتوں سے تعطل کا شکار رہی ہیں. ادھر مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے امریکی جریدے ”دی اٹلانٹک“ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ میں کسی بھی طویل المدت حل میں حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنا ضروری ہے وٹکوف کے مطابق غزہ میں مسلح حماس کی موجودگی نا قابل قبول ہے اور اس کا غیر مسلح کیا جانا کسی بھی پائے دار امن معاہدے کا بنیادی جزو ہے اسی ضمن میں وٹکوف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیلی عوام کی رائے اس معاملے پر منقسم ہے کہ غزہ میں موجود قیدیوں کو رہا کرانا ضروری ہے یا نہیں اور اس موضوع پر ایک گہرا اختلاف موجود ہے کہ آیا کسی باقاعدہ مذاکراتی تصفیے تک پہنچنا چاہیے یا نہیں . قبل ازیںامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ساموئیل وربرگ نے ریاض میں” العربیہ“ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے مفادات کو اسرائیل یا کسی بھی اور ملک کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ غزہ میں جنگ جلد از جلد ختم ہو. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی غزہ میں جنگ بندی کی اپنی اپیل کو دہراتے ہوئے زور دیا کہ انسانی امداد کسی رکاوٹ کے بغیر پہنچنے کی اجازت دی جائے برلن میں جرمن چانسلر فریڈرش میرٹس کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے غزہ میں موجود تمام قیدیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا اور ان تمام اقدامات کو فوری طور پر روکنے پر زور دیا انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات ایک نا قابل واپسی سیاسی عمل کا دروازہ کھول سکتے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کے کہ غزہ میں کہا کہ کے لیے نے کہا
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں غیر معمولی فوجی کارروائی کی تیاری
اسرائیلی فوج غزہ میں ایک بڑی اور غیر معمولی فوجی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ اسرائیلی ویب سائٹ “واللا” کے مطابق اس بار محدود آپریشن کے بجائے پانچ مکمل عسکری بریگیڈز کو حرکت دینے پر غور کیا جا رہا ہے، جبکہ جنگ کے آغاز سے اب تک فلسطینی شہریوں کو سب سے بڑے انخلاء پر مجبور کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
اتوار کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد کیا، جس میں غزہ میں جاری جنگ کے اگلے مراحل پر غور کیا گیا۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
اسرائیلی قیادت دو راستوں پر غور کر رہی ہے: یا تو حماس کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچا جائے، یا ایک اور وسیع زمینی کارروائی شروع کی جائے۔
عرب ٹی وی کے مطابق عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج جنگ کے آغاز سے اب تک کی سب سے بڑی شہری انخلاء کی کارروائی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے تاکہ نئے فوجی آپریشن کے لیے زمینی حالات سازگار بنائے جا سکیں۔
فوجی قیادت کے بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ ایک وسیع زمینی کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے، جس کے لیے شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ سے فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر ہٹانا ضروری ہوگا۔
اس منصوبے میں پانچ مکمل بریگیڈز کو متحرک کرنے کی تجویز شامل ہے، جبکہ اس کے لیے ریزرو فوجیوں کو بھی نئی طلبی دی جائے گی تاکہ افرادی قوت میں اضافہ کیا جا سکے۔
فوجی حکام کے مطابق، اس ممکنہ کارروائی کا مقصد حماس کی سیاسی و عسکری قیادت کو کمزور کرنا ہے، خاص طور پر جب عوامی غصہ حماس کے خلاف بڑھ رہا ہے۔ تاہم حکام نے خبردار بھی کیا ہے کہ غزہ کی گنجان آباد اور سرنگوں سے بھرپور آبادیوں میں جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیلی جنرل اسٹاف میں اس وقت اس معاملے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ کا ماننا ہے کہ فوجی کامیابیاں کافی ہیں اور جنگ کو ختم کیا جا سکتا ہے، جبکہ دوسروں کا اصرار ہے کہ مزید عسکری دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔
اتوار کے روز اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے متعدد علاقوں میں انخلاء کا نیا انتباہ جاری کیا۔ فوج کے ترجمان اویخای ادرعی کے مطابق، غزہ شہر، جبالیا اور ان کے آس پاس کے علاقوں جیسے الزیتون الشرقی، البلدہ القدیمہ، الترکمان، جدیدہ، التفاح، الدرج، الصبرہ، جبالیا البلد، جبالیا النزلة، معسکر جبالیا، الروض ، الن ضہ، الز ور، النور، السلام اور تل الزعتر میں موجود تمام افراد کو فوری انخلاء کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں موجود قیدیوں کی واپسی کے لیے حماس کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اتوار کے روز ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشیئل” پر لکھا: “غزہ کا معاہدہ کریں اور قیدیوں کو واپس لائیں”۔
اس سے قبل تین سینئر اسرائیلی حکام نے اعتراف کیا کہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق حماس کے ساتھ اختلافات بدستور بہت گہرے ہیں۔
ان میں سے ایک، جو مذاکرات سے واقف ہیں، نے کہا: “ہم اس وقت بھی جمود کا شکار ہیں۔” ان کے مطابق، جنگ کے خاتمے کی شرائط پر حماس کے ساتھ اختلافات ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس وقت تک نہ مصر اور نہ ہی قطر کو قیدیوں کے تبادلے پر مذاکراتی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے مارچ میں عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد غزہ میں دوبارہ کارروائیاں شروع کی تھیں، اور خاص طور پر جنوبی علاقوں میں زمینی کارروائیاں تیز کی گئی تھیں۔ اس دوران شمالی غزہ سے بڑے پیمانے پر انخلاء کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
اسرائیل نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ میں ان نئے علاقوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا، جہاں مارچ سے قبضہ قائم کیا گیا ہے، اور وہاں خوراک و دوا کی امداد پر سخت پابندیاں بھی جاری ہیں۔