اسلام ٹائمز: جناب اسلم سلیمی صاحب قیم جماعت اسلامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کا دن 15 مئی ہے۔ مزید براں انہوں نے کہا کہ کسی ملک کو گالی نہیں دینی چاہیئے۔ انہوں نے اپنے اس موقف پر دلائل بھی دیئے۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو جماعت اسلامی کے موقف پر حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ اب اپنے جلسوں، جلوسوں اور تقاریر کو امریکہ مخالف نعروں سے زینت دیتے ہیں۔ "بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی" میں نے سیمینار کے بعد ڈاکٹر شہید سے پوچھا کی ہماری تاریخ تو غلط ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر شہید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو وجود میں لانے کا دن 15 مئی ہی ہے، مگر اسرائیل نے اپنا کام 16 مئی کو شروع کیا تھا، اس دن سے اس نے اپنے ظلم و ستم کا آغاز کیا۔ اسے ہم یوم مردہ باد امریکہ کے نام سے منائیں گئے۔ تحریر: سید نثار علی ترمذی
انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک ثمر استعمار شناسی و استعمار دشمنی ہے۔ امریکہ اس کا سب سے بڑا مصداق ہے۔ اس کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کے لیے ہر موقع کو استعمال کیا جاتا تھا۔ ہر ناکامی اور خرابی کو امریکی سازش قرار دینا اس دور میں عام تھا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی اگر کسی کے خلاف کوئی سخت الفاظ کہنا چاہتے تو یوں کہتے"در فٹے منہ امریکہ دا۔" ایک زخمی کی عیادت کے لیے گیا، اس کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہوا تھا، کسی انقلابی نے مارکر سے اس پر مردہ باد امریکہ لکھا ہوا تھا۔ ان دنوں ایسے مواقع کی تلاش رہتی تھی کہ امریکہ کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرسکیں۔ اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے دن کو اس کے سرپرست امریکہ کے خلاف 16 مئی 1986ء کو "یوم مردہ باد امریکہ" منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اس موقع کی مناسبت سے اپنا پیغام جاری کیا۔ ایک خوب صورت رنگین اشتہار شائع کیا گیا، جس میں اسرائیل کو خنجر کی شکل میں فلسطین کے جسم میں پیوست دکھایا گیا تھا۔ اس کی ترسیل پورے ملک میں کی گئی۔ لاہور میں اس حوالے سے دو پروگرام طے کیے گئے۔ ایک مال روڈ، لاہور پر مظاہرہ کرنا، دوسرا فلیٹیز ہوٹل میں "مردہ باد امریکہ سیمینار" کا انعقاد کرنا۔ 16 مئی 1986ء کو لاہور میں گیارہ بجے دن مال روڈ، لاہور پر مظاہرہ کیا گیا۔ ورکنگ ڈے کی وجہ لوگ کم تھے، مگر عزم و حوصلے والے لوگ میدان مین تھے، جن میں بزرگ سید اعجاز علی شاہ مرحوم بھی شامل تھے۔ جلوس کی ایک سرگرمی ایک بہت بڑا بینر، جس پر یوم مردہ باد امریکہ لکھا ہوا تھا، الفلاح بلڈنگ مال روڈ پر لہرایا گیا تھا۔ خوب نعرے بازی ہوئی۔
ڈاکٹر شہید نے ولولہ انگیز خطاب کیا۔ اب ان کا پروگرام تھا کہ اس بینر کو آگ لگا دی جائے۔ مگر انتظامیہ نے اس سے منع کیا کہ اس سے بلڈنگ کو آگ لگ سکتی ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ آگ لگانے والے افراد کو پیغام دیا کہ وہ رک جائیں، مگر وہ پیغام ملنے سے پہلے اس پر عمل کرچکے تھے۔ جیسے ہی آگ لگی پولیس نے اندھا دھند لاٹھی چارج شروع کرکے گرفتاریاں شروع کر دیں اور انہیں قلعہ گجر سنگھ تھانے میں بند کر دیا۔ میں جب دفتر سے 2۔ دیو سماج روڈ، تحریک جعفریہ کے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ اعجاز جعفری موٹر سائیکل پر دریاں، لوٹے اور دیگر سامان لیے تیار کھڑا تھا۔ کہنے لگا "ڈاکٹر صاحب پھڑے گئے ہیں، ادھر جا رہیا ہاں۔" میں اس کے ساتھ ہی تھانے چلا گیا۔ وہاں سلاخ دار کمرے میں شہید ڈاکٹر اور پندرہ بیس کے قریب نوجوان بند تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ہمارا استقبال کیا۔ اتنے میں حیدر علی مرزا مرحوم آگئے۔
ہم وہاں ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ ہمارے بیٹھتے ہی ایس پی سید مروت علی شاہ اور خاتون میجسٹریٹ کے ہمراہ آپہنچے۔ ڈاکٹر شہید کو بلایا گیا۔ مروت علی شاہ ڈاکٹر صاحب سے اٹھ کر ملے اور معذرت کرتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ وہ اپنی صفائی میں دلائل دینے لگا اور ہماری غلطیوں کی نشان دہی کرنے لگے کہ ہمارے منع کرنے کے باوجود بینر کو آگ لگائی، جس پر یہ اقدام اٹھانا پڑا، لیکن ہم نے ابھی تک اس واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی۔ ڈاکٹر شہید نے شکوہ کیا کہ پولیس نے بے رحمانہ تشدد کیا ہے، اس کے ثبوت کے طور پر ایک نوجوان کو طلب کیا، جس کے بازو کا گوشت پھٹا ہوا تھا۔ اس پر مروت شاہ صاحب نے کہا "ڈاکٹر صاحب جس ویلے لاٹھی چارج ہو رہیا ہوئے ایہوں جا ہو جاندہ ہے۔" یہ کہ کر وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ باندھ کر ڈاکٹر شہید کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا جو مجھ سے زیادتی ہوئی، جبکہ میں مجبور تھا، آپ معاف کر دیں۔
ڈاکٹر شہید نے ایک عرصہ کے بعد بتایا کہ پولیس والے مجھے نکال کر لے گئے تھے اور تھانے کے ساتھ والے فوٹو اسٹوڈیو پر لے جاکر میری ہر طرف سے بیسیوں تصاویر اتاری گئیں۔ جب تھانے سے نکلے تو شہید ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہاں سے فلیٹیز چلنا ہے، سیمینار ہوگا۔ وہاں سے فلیٹیز ہوٹل آگئے۔ سیمینار کے مہمان خصوصی جماعت اسلامی کے قیم (جنرل سیکرٹری) اسلم سلیمی تھے۔ ہوٹل کی وجہ سے لوگ کافی تھے۔ ہال کے داخلی گیٹ پر امریکی پرچم بچھایا ہوا تھا، لوگ اس پر سے گزر کر آ رہے تھے۔ سیمینار کی غرض و غایت ڈاکٹر شہید نے بیان کی۔ ڈاکٹر شہید نے وضاحت کی گو اسرائیل کے معرض وجود لانے میں برطانیہ اور دیگر سامراج شامل تھے، مگر اب یہ کردار امریکہ ادا کر رہا ہے۔ امریکہ اسرائیل کا سرپرست ہے، اس لیے ہماری نفرتوں کا مرکز امریکہ ہے۔ سیمینار امریکہ مخالف نعروں سے گونجتا رہا۔
جناب اسلم سلیمی صاحب قیم جماعت اسلامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کا دن 15 مئی ہے۔ مزید براں انہوں نے کہا کہ کسی ملک کو گالی نہیں دینی چاہیئے۔ انہوں نے اپنے اس موقف پر دلائل بھی دیئے۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو جماعت اسلامی کے موقف پر حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ اب اپنے جلسوں، جلوسوں اور تقاریر کو امریکہ مخالف نعروں سے زینت دیتے ہیں۔ "بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی" میں نے سیمینار کے بعد ڈاکٹر شہید سے پوچھا کی ہماری تاریخ تو غلط ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر شہید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو وجود میں لانے کا دن 15 مئی ہی ہے، مگر اسرائیل نے اپنا کام 16 مئی کو شروع کیا تھا، اس دن سے اس نے اپنے ظلم و ستم کا آغاز کیا۔ اسے ہم یوم مردہ باد امریکہ کے نام سے منائیں گئے۔ تصویر مردہ باد امریکہ سیمینار کی ہے۔ سابقہ وزیر قانون سید افضل حیدر ایڈووکیٹ مرحوم خطاب کر رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نقیب سیمینار بھی رونق اسٹیج ہیں۔ ڈائس پر یوم مردہ باد امریکہ کا اشتہار بھی آویزاں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے معرض وجود یوم مردہ باد امریکہ کہا کہ اسرائیل ڈاکٹر شہید نے جماعت اسلامی کا دن 15 مئی ڈاکٹر صاحب امریکہ کے کے خلاف ہوا تھا نے اپنے
پڑھیں:
اسرائیل جنگ میں 900 سے زائد ایرانی شہری شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران : ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ خوفناک جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی شہریوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر گئی ہے، اب تک کم از کم 935 شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق ایرانی وزارت انصاف کے ترجمان کاکہناہےکہ شہید ہونے والوں میں 132 خواتین اور 38 بچے بھی شامل ہیں جب کہ کئی درجن افراد اب بھی لاپتہ یا شدید زخمی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
خیال رہےکہ جنگ 13 جون کو اُس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے اچانک ایران کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، ابتدائی حملوں میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، ان حملوں کے بعد پورے ملک میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی تھی۔
ایران نے اسرائیلی جارحیت کا جواب بھرپور انداز میں دیا۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر جوابی میزائل حملوں میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے، ان حملوں نے اسرائیلی شہروں میں خوف کی فضا قائم کر دی۔
واضح رہےکہ امریکا بھی اسرائیل کے ساتھ کھل کر میدان میں آ گیا تھا، امریکی فضائیہ نے ایران کے اہم جوہری مراکز فردو، اصفہان اور نطنز پر شدید بمباری کی تھی، جس کے بعد ان تنصیبات کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا، ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو شدید دھچکا پہنچا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان 24 جون کو بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آئی، فریقین کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ تصادم کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
عالمی برادری نے اس جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے صبر و تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا مطالبہ کیا ہے۔