ٹرمپ کا متنازعہ بیان: غزہ کو آزادی زون بنائیں گے، امریکہ خود سنبھالے گا
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
دوحہ : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر میں ایک بزنس راؤنڈ ٹیبل سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی کو "آزادی زون" بنانے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں اب بچانے کو کچھ نہیں بچا، اس لیے امریکہ وہاں "کچھ اچھا" کرنا چاہتا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، “میں نے فضائی تصاویر دیکھی ہیں، جہاں کوئی عمارت کھڑی نہیں بچی۔ لوگ ملبے کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو ناقابل قبول ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “اگر ضرورت پڑی تو میں فخر سے کہوں گا کہ امریکہ غزہ کو سنبھالے اور اسے ایک آزادی زون بنائے، جہاں مثبت تبدیلی آئے۔”
قطر، جو طویل عرصے سے حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی کرتا ہے، وہاں امریکی صدر کا یہ بیان خاصا متنازع اور عالمی سطح پر بحث کا باعث بن سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا حماس نے امریکہ و اسرائیل کو فریب دیا ہے؟
اپنے ایک تبصرے میں انصار الله کا کہنا تھا کہ غزہ کے لوگ گھٹن بھرے محاصرے، مسلسل حملوں اور روزانہ ہونے والی اموات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسے کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ میں جنگ بندی كے لئے امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" كے پیش كردہ منصوبے كا جواب دیا۔ جس پر مختلف تجزیے اور تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ "انصار الله" سے مربوط یمنی نیوز ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں حماس کے جواب کو دانشمندانہ قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حماس نے امریکی تجاویز کو من و عن قبول نہیں کیا۔ مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق، حماس بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی اصل آواز اور ان کی دفاعی ڈھال ہے۔ حماس نے جس قسم کی قربانی دے دی ہے وہ دور بیٹھ کر باتیں اور رائے پیش کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، حماس نے ڈونلڈ ٹرامپ کی تجویز کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا بلکہ صرف بنیادی اصولوں سے اتفاق کیا، جیسے کہ اسرائیلی قیدیوں کو ایک یا کئی مرحلوں میں رہا کرنا۔ امریکی صدر کی تجویز میں کل 20 نکات تھے جب کہ حماس نے صرف 9 نکات سے اتفاق کیا۔ باقی نکات پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ یہ نکات نئے نہیں، بلکہ پہلے بھی حماس ان سے متفق رہی ہے۔
حماس کے لئے ٹیکنوکریٹ (ماہرین پر مشتمل) حکومت کا تصور نیا نہیں، بلکہ وہ پہلے بھی ایسی ہی حکومت بنانے کی خواہش ظاہر کر چکی ہے۔ تاہم فلسطینی مزاحمت نے اس بات پر زور دیا کہ ان نکات پر عمل درآمد کے لئے مزید مذاکرات درکار ہیں۔ لہذا، حتمی موقف ابھی تشکیل پا رہا ہے اور حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔ باقی نکات سے حماس نے براہ راست اتفاق نہیں کیا، بلکہ کہا ہے کہ ان پر مزید بات چیت ہونی چاہئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا سیاسی اور سفارتی رویہ ہے۔ البتہ حماس نے ان تجاویز کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا، کیونکہ اس کے بعض نکات جیسے قیدیوں کی رہائی، جبری نقل مکانی کو روکنا، تعمیر نو اور جنگ بندی، فلسطینی مفاد میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرامپ کی تجویز میں کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے اسے موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلاء کی نوعیت اور استقامتی محاذ کے ہتھیار، کہ جنہیں حماس سے حاصل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہی کمزوریوں کی وجہ سے حماس نے سوچ سمجھ کر محتاط رویہ اپنایا ہے۔ تاکہ وہ کسی سیاسی یا عسکری جال میں نہ پھنس جائے۔
انصار الله نے مزید کہا کہ یمنی رہنماوں نے امریکی صدر کی تجویز کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ، فلسطینی مزاحمت پر چھوڑ دیا ہے۔ مقاومت کے حامی کی حیثیت سے ہمارا موقف اب بھی برقرار ہے۔ لہذا، فلسطینی مزاحمت جو بھی فیصلہ کرے گی، ہم اسے قبول کریں گے۔ کیونکہ سب سے زیادہ قربانی تو حماس ہی نے دی ہے۔ غزہ کے لوگ گھٹن بھرے محاصرے، مسلسل حملوں اور روزانہ ہونے والی اموات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسے کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں، ہم دنیا کی خاموشی اور عرب و اسلامی ممالک کی ناکامی کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے صبر اور مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حماس کامیاب رہی اور ہمیں آئندہ ہونے والی پیشرفت کا انتظار کرنا چاہئے۔ یقیناً جنگ کے اس دور کا اختتام صرف اور صرف حماس و دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی شرائط پر ہی ہو گا۔