دوحہ : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر میں ایک بزنس راؤنڈ ٹیبل سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی کو "آزادی زون" بنانے کے لیے تیار ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ غزہ میں اب بچانے کو کچھ نہیں بچا، اس لیے امریکہ وہاں "کچھ اچھا" کرنا چاہتا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا، “میں نے فضائی تصاویر دیکھی ہیں، جہاں کوئی عمارت کھڑی نہیں بچی۔ لوگ ملبے کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جو ناقابل قبول ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “اگر ضرورت پڑی تو میں فخر سے کہوں گا کہ امریکہ غزہ کو سنبھالے اور اسے ایک آزادی زون بنائے، جہاں مثبت تبدیلی آئے۔”

قطر، جو طویل عرصے سے حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی کرتا ہے، وہاں امریکی صدر کا یہ بیان خاصا متنازع اور عالمی سطح پر بحث کا باعث بن سکتا ہے۔


 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ٹرمپ ٹارگٹ ، ایران کے بعد شمالی کوریا ؟

کیا ایران کے بعد امریکہ کا اگلا ٹارگٹ شمالی کوریا ہے؟ یہ سوال ایران پر امریکی حملے کے فورا بعد عالمی سطح پر شدت سے زیرِ بحث آ رہا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری نے مشرق وسطی کی فضامیں خوف وہراس پیدا کر دیا،مگر مشرقی ایشیا کے پالیسی سازوں اور اسٹریٹجک ماہرین نےاس واقعے کو ایک اور زاویے سے دیکھا اور یہ سوال ابھرا کہ کیا امریکہ وہی طرزِ عمل اب شمالی کوریا کے خلاف بھی اختیار کرے گا؟ اگرچہ ایران اور شمالی کوریا کے حالات بظاہر مماثل دکھائی دیتے ہیں، لیکن جوہری صلاحیت، عسکری اتحادی، اور جغرافیائی حقائق انہیں یکسر مختلف بنا دیتے ہیں۔ امریکہ کا شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی طرح کی مہم جوئی کرنا ایران سے کہیں زیادہ پیچیدہ، خطرناک اور مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔کیا ایران پر حملہ شمالی کوریا کو مزید ضدی اور خطرناک بنا دے گا؟یہ سلگتا سوال ماہرین کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ شمالی کوریا جو پہلے ہی دنیا سے کٹا ہوا، خودمختار اور عسکری طور پر حساس ملک ہے، ایران پر امریکی حملے کو اپنی بقا کے بیانیے کا ثبوت سمجھ رہا ہے۔ پیونگ یانگ میں موجود حکام اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر ایران جیسا ملک جو جوہری ہتھیاروں کے بغیر صرف افزودہ یورینیم رکھتا تھا، امریکی حملے سے نہ بچ سکا، تو شمالی کوریا کے پاس پسپائی کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سوچ کے نتیجے میں شمالی کوریا کی ضد، اس کی عسکری تیاریوں اور جوہری پروگرام کی رفتار میں اضافہ متوقع ہے، کیونکہ اب وہ خود کو ہر حال میں محفوظ رکھنے کے لیے جارحانہ پالیسیوں کو ترجیح دے گا۔کیا امریکہ کا ایران پر حملہ پیونگ یانگ کے دیرینہ موقف کو درست ثابت کرتا ہے؟شمالی کوریا عرصہ دراز سے کہتا آ رہا ہے کہ امریکہ کا مقصد صرف کمزور حکومتوں کو نشانہ بنانا ہے اور صرف جوہری ہتھیار ہی اس کی جارحیت سے بچنے کی ضمانت ہیں۔
ایران پرحملے نے اس موقف کو بین الاقوامی سطح پر تقویت دی ہے۔ پیونگ یانگ کے بیانیے کو اب داخلی سطح پر عوام اور حکومتی مشینری کے درمیان مزید پذیرائی مل رہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے عسکری کارروائی نے سفارتکاری کے دروازے مزید بند کر دیئے ہیں اور شمالی کوریا کودفاعی نہیں بلکہ جارحانہ حکمتِ عملی اختیارکرنے کی ترغیب دی ہے۔ شمالی کوریا روس سے دفاعی تعاون کیوں بڑھا رہا ہے؟ یوکرین جنگ کے بعد شمالی کوریا اور روس کے درمیان فوجی تعلقات میں غیرمعمولی وسعت آئی ہے۔ روس کو گولہ بارود، راکٹ، توپیں اور دیگر عسکری سازوسامان بہت بڑی مقدار میں فراہم کرنے کے بدلے میں پیونگ یانگ کو فضائی دفاع، الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی اور میزائل نظام جیسی جدید دفاعی صلاحیتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ اس تعاون کا ایک مقصد امریکہ کی ممکنہ جارحیت کے خلاف مضبوط تزویراتی بندوبست بھی ہے۔ روس کے ساتھ اس تعلق کو شمالی کوریا اپنی سلامتی کا اہم ستون تصور کر رہا ہے۔ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام میں بنیادی فرق کیا ہے؟ ایران ابھی تک جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے مرحلے میں نہیں پہنچا جبکہ شمالی کوریا کے پاس پہلے سے تقریبا 40 سے 50 جوہری وارہیڈز موجود ہیں۔ مزید یہ کہ شمالی کوریا کے پاس انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائلز (ICBMs) بھی ہیں جو امریکہ کی سرزمین تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس فرق کا مطلب یہ ہے کہ جہاں ایران کو دبائو کے ذریعے روکاجا سکتا تھا، وہاں شمالی کوریا کے خلاف کوئی بھی جارحیت براہ راست جوہری ردعمل کو دعوت دےسکتی ہے۔کیا شمالی کوریا پر حملہ ایٹمی جنگ کی طرف پہلا قدم ہوگا؟ اگر امریکہ شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی عسکری مہم جوئی کا آغاز کرتا ہے تو اس کے نتائج ایک محدود تنازعے سے کہیں آگے نکل سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس موجود جوہری صلاحیت، اس کی جارحانہ حکمت عملی، اور روس کے ساتھ اس کا اتحادیہ سب مل کر ایک ممکنہ عالمی جوہری جنگ کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ اس خطرے کو نظر انداز کرنا کسی بھی عالمی قیادت کے لیے ناقابل معافی غلطی ہوگی۔امریکہ کو شمالی کوریا پرحملے سے پہلے کن قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہوگا؟ امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان دفاعی معاہدے کی شقوں کے مطابق، کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل سیئول سے مشاورت ضروری ہے۔ یہ صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ سیاسی اور قانونی مرحلہ ہے۔
جنوبی کوریا، جو خود شمالی کوریا کی زد میں ہے، کسی بھی حملے سے قبل تمام ممکنہ نتائج کا تخمینہ لگائے گا، اور ممکنہ طور پر اس کی مخالفت کرے گا۔ یہ معاہدہ امریکی صدر کو فوری طور پر فیصلہ کرنے سے روک سکتا ہے، خاص طور پرجب حملے کے نتائج ناقابلِ پیشگوئی ہوں۔روس اور شمالی کوریا کا دفاعی اتحاد امریکہ کے لیے کیا چیلنج کھڑا کرتا ہے؟ روس اور شمالی کوریا کے درمیان اگرچہ پرانا دفاعی معاہدہ موجود ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس میں نئی جان ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ روس، جو یوکرین جنگ میں پہلے ہی مغرب کےخلاف کھڑا ہے، ممکنہ طور پر شمالی کوریا کےدفاع میں کھل کر میدان میں آ سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال امریکہ کے لیے دو محاذی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہےایک یورپ میں اور دوسری مشرقی ایشیاء میں جس کے لیے امریکہ نہ سیاسی طور پر تیار ہے، نہ عسکری طور پر۔یہ سوال بھی کیاجا رہا ہے کہ کیا امریکہ کی ایران پر کارروائی جوہری پھیلا کو کم کرے گی یا بڑھائے گی؟ ایران پرحملے سے امریکہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ جو ملک جوہری طاقت نہیں رکھتا وہ حملے کا آسان ہدف ہے۔ اس پیغام نے نہ صرف شمالی کوریا بلکہ دیگر ممکنہ جوہری عزائم رکھنے والے ممالک کو بھی خبردار کر دیا ہے کہ طاقت کی واحد زبان جو مانی جاتی ہے وہ ہتھیاروں کی زبان ہے۔ اس حملے نے جوہری عدم پھیلائو کی عالمی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے، اور اس بیانیے کو فروغ دیا ہے کہ صرف جوہری ہتھیار ہی خودمختاری کی ضمانت ہیں۔کیا ٹرمپ ایران پر حملے کے ذریعے داخلی سیاست سے توجہ ہٹانا چاہتے تھے؟ ٹرمپ پر داخلی دبائو شدید ہے، خاص طور پر ان کے سیاسی اتحادی نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کیس کے تناظر میں۔ اسرائیل اور امریکہ کی باہمی سیاسی ہم آہنگی کی روشنی میں یہ قیاس بے بنیاد نہیں کہ ایران پر حملہ داخلی سیاسی بحران سے توجہ ہٹانے اور اسرائیلی قیادت کو ریلیف دینے کی ایک کوشش تھی۔ اس طرح کی عسکری مہم جوئی اکثر داخلی سیاسی مفادات کے تابع ہوتی ہے، اور یہی شک امریکہ کے عالمی کردار کو مشکوک بنا دیتا ہے۔یہ تمام دلائل اور واقعات مل کر اس بات کی گہرائی سے تصدیق کرتے ہیں کہ شمالی کوریا ایران سے یکسر مختلف تزویراتی تناظر رکھتا ہے۔ اس پر ایران جیسے حملے کی کوشش نہ صرف خطے کو جوہری تصادم کی طرف لے جا سکتی ہے بلکہ امریکہ کے عالمی مقام، اتحادیوں پر اعتماد، اور داخلی استحکام کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایران پر گرنے والے امریکی بم دراصل پیونگ یانگ کے ایٹمی بنکروں میں گونجنے والی گھنٹیاں ہیں، جو دنیاکو کسی بڑے المیے سے پہلے خبردار کر رہی ہیں۔ اگر واشنگٹن نے ان گھنٹیوں کو سننے سے انکار کیا، تو شاید دنیا کو اس کی قیمت تاریخ کے مہنگے ترین فیصلوں میں سے ایک کے طور پر چکانا پڑے۔

متعلقہ مضامین

  • کے آئی یو سے 12 طلباء کا اخراج غیر آئینی اور مذہبی آزادی پر حملہ ہے، طلبہ اتحاد
  • ٹرمپ میڈیا پر برتری ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں‘ ایرانی سپریم لیڈر
  • امریکہ نے کچھ حاصل نہیں کیا، ٹرمپ حقیقت چھپا رہے ہیں:خامنہ ای
  • ایران ایٹمی پروگرام کیجانب بڑھا تو یہ انکا آخری اقدام ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملہ
  • امریکی بیانیے کی ناکامی
  • ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 30 ارب ڈالر کے جوہری معاہدے کی تردید کردی
  • ایران کی امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی
  • ٹرمپ ٹارگٹ ، ایران کے بعد شمالی کوریا ؟
  • صدر ٹرمپ کا مضحکہ خیز بھاشن