بلوچستان: اعتماد کا بحران
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
انسانی حقوق کی بالادستی کے بغیر نہ تو غربت ختم ہوسکتی ہے، نہ ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی ریاست پر آئین کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور نہ ہی جمہوری ادارے تقویت پا سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) 1987 میں قائم ہوا، انصاف اور عدل کی بالا دستی کے موقف پر ساری زندگی یقین رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دراب پٹیل، انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر، عوامی حقوق کے علمبردار اور وزارت خزانہ کے عہدے پر پہنچنے والے ڈاکٹر مبشر حسن، آزادی صحافت کی جدوجہد کرنے والے اور انسانی حقوق کے لیے ساری زندگی وقف کرنے والے صحافی آئی اے رحمان اور حسین نقی، ترقی پسند استاد ڈاکٹر مہدی حسن کمیشن کے بانیان میں شامل تھے۔ ایچ آر سی پی کے اکابرین نے کمیشن کے قیام کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی مسئلے پر مکمل حقائق جمع کرنے کے بعد اپنی رپورٹ تیار کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ آر سی پی نے اپنے قیام کے بعد ملک بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں حقائق جمع کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے ۔ ایچ آر سی پی اب بھی اہم موقع پر اپنے مشنز متاثرہ علاقوں میں بھیجتی ہے۔
ان مشنز کے اراکین جمع کردہ حقائق اور مشاہدات پر مبنی رپورٹ تیار کرتے ہیں، ایچ آر سی پی کی پالیسی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرزکے خیالات ان رپورٹوں میں شامل ہوں۔ ایچ آر سی پی نے اپنے موجودہ چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی قیادت میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان بھیجا۔ یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کی بنیاد پر مرتب کی گئی، جو 9 سے 12 جولائی 2025 کے درمیان بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے انسانی حقوق کی صورت حال، شہری آزادیوں اور مسلح کارروائیوں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ترتیب دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی رویے، بالخصوص جبری گمشدگیاں، سیاسی بے دخلی، شہری دائرہ کار کی سکڑتی ہوئی حدود اور صوبائی خود مختاری کی مسلسل پامالی، بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھا رہے ہیں۔
بلوچستان، ایک ایسا خطہ جسے وسائل کی فراوانی تو ملی، مگر ریاستی انصاف کا سایہ نہ مل سکا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP)کی حالیہ رپورٹ ’’بلوچستان میں اعتماد کا بحران‘‘ نہ صرف اس محرومی کی گواہ ہے، بلکہ یہ اس جبر، سیاسی استحصال اور مسلسل پھیلتے ہوئے انسانی المیے کی دستاویز ہے، جس نے بلوچ معاشرے کو بے یقینی، خوف اور بے بسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ رپورٹ میں سب سے زیادہ توجہ جس سنگین مسئلے پر دی گئی ہے، وہ ہے جبری گمشدگیوں کا تسلسل۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے، مگر پاکستان میں اسے معمول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
بلوچستان پولیس کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 2025 میں جبری گمشدگیوں کے 46 نئے کیسز رجسٹر ہوئے جب کہ مجموعی طور پر 356 افراد کی گمشدگی رپورٹ ہوئی، جن میں سے 116کو بازیاب کر لیا گیا، 12 افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے اور 192 کیسز تاحال حل طلب ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جو اکثر اوقات زمینی حقیقت سے بہت کم ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف انصاف سے محروم رکھا گیا بلکہ انھیں ہراساں بھی کیا گیا۔ کچھ کو پیشہ ورانہ اسناد سے محروم کردیا گیا تو بعض کو نگرانی، حراست یا دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے تسلیم کیا کہ جبری گمشدگی ایک مسئلہ ہے، لیکن اسے پیچیدہ اور متنازع قرار دے کر ریاستی جبر کو ایک متبادل سچائی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے بلوچ مزاحمتی تنظیموں جیسے بلوچ لبریشن آرمی پر اغوا ء کا الزام لگایا مگر رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ گورنر شیخ جعفر خان مندوخیل کا بیان کہ جب بغاوتیں ہوتی ہیں تو گمشدگیاں بھی ہوتی ہیں، اس ریاستی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو جبری گمشدگی کو ایک انسانی المیے کے بجائے جنگی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھتی ہے۔ ایچ آر سی پی نے انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت افراد کو بغیر کسی عدالتی نگرانی کے 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ قانون تشدد،بدسلوکی اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے امکانات میں اضافہ کرتا ہے اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ HRCP نے اس قانون کو واپس لینے اور تمام انسدادِ دہشت گردی قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح سپریم کورٹ کے معروف فیصلے محبت شاہ کیس (2013) میں دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنا بھی ریاستی اداروں کی عدالتی فیصلوں سے انکار اور احتساب سے فرار کو ظاہر کرتا ہے۔ بلوچستان میں انتخابی عمل کو بھی رپورٹ میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ HRCP کا کہنا ہے کہ قومی پرست جماعتوں کو دیوار سے لگانا، انتخابات میں دھاندلی،اور ریاستی مشینری کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال عوام کے جمہوری نظام سے اعتماد اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انتخابات میں شفافیت، غیر جانبداری اور جوابدہی کو یقینی بنایا جائے۔ ایچ آر سی پی نے اس رپورٹ میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رہائی پر زور دیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کی شکایات صرف گمشدگیوں یا سیاسی بے دخلی تک محدود نہیں۔ HRCP نے اٹھارویں ترمیم کے تحت دی گئی صوبائی خود مختاری کی پامالی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور معدنیات سے متعلق متنازعہ منصوبوں کو بھی عوامی ناراضی کی وجوہات میں شامل کیا ہے۔
رپورٹ کا اختتام اس انتباہ پر ہوتا ہے کہ اگر ریاست نے بلوچستان کے عوام کی شکایات کا شفاف، حقوق پر مبنی اور سیاسی حل تلاش نہ کیا تو یہ شورش مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ریاستی سیکیورٹی پالیسیوں کو قومی اتحاد کے تحفظ کے بجائے مزید تقسیم کا باعث نہ بننے دیا جائے۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کو فی الفور ختم کیا جائے، 2022 میں پاس ہونے والی قانون سازی پر عمل کیا جائے، ناکام کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنس کو تحلیل کر کے موثر نیا کمیشن قائم کیا جائے، انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کو انسانی حقوق کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائے، انسانی حقوق کے محافظین کو تحفظ اور آزادی دی جائے۔ 2000 میں منظور ہونے والے قانون پر عمل کیا جائے۔ بلوچستان میں حالات اتنے خراب ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے عوام انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں اور بلوچستان آنے جانے والی ٹریفک کو ہمیشہ دہشت گردوں کے حملے کا خوف رہتا ہے۔ اس صورت حال میں اسلام آباد کی حکومت اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی انسانی حقوق کے بلوچستان میں ایچ ا ر سی پی ایچ آر سی پی بلوچستان کے ر سی پی نے رپورٹ میں کے مطابق کیا جائے کرتا ہے
پڑھیں:
میانمار میں قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ نے بڑے بحران کی وارننگ دیدی
میانمار کی راکھین ریاست میں قحط کا شدید خدشہ پیدا ہو گیا ہے اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے فوری امداد کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فنڈز نہ ملے تو یہ بحران مکمل تباہی میں بدل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق جنگ زدہ علاقے میں خوراک کی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خصوصاً 1 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمان 2012 کے نسلی فسادات کے بعد سے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی نے میانمار کی معیشت تباہ کر دی ہے، لیکن فوجی محاصرے کی وجہ سے راکھین کی صورتحال دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار فوج کا عام شہریوں پر فضائی حملے کا اعتراف، 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ
رپورٹس کے مطابق خوراک کی شدید کمی کے باعث رواں سال اپریل میں اوہن ٹاؤ کی کیمپ کے ایک 50 سالہ شخص نے بھوک سے تنگ آ کر کھانے میں زہر ملا کر خودکشی کر لی، جبکہ اُس کی بیوی اور 2 بچے پڑوسیوں کی بروقت مدد سے بچ گئے۔ جون میں ستوے شہر میں ایک راکھینی خاندان نے اسی طرح جان لی، اور گزشتہ ہفتے حالیہ جھڑپوں کے باعث بے گھر ہونے والے ایک ضعیف جوڑے نے فاقوں سے تنگ آ کر خود کشی کرلی
ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اس کے فنڈز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد کمی آئی ہے اور وہ میانمار میں شدید غذائی بحران کا شکار صرف 20 فیصد افراد کو ہی خوراک فراہم کر پارہا ہے۔ مارچ میں فنڈز کی کمی کے باعث راکھین میں امداد روک دی گئی، حالانکہ اس سال کے آغاز سے خوراک سے محروم خاندانوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے نمائندہ مائیکل ڈنفورڈ کے مطابق لوگ ایک شیطانی چکر میں پھنس گئے ہیں، جنگ نے انہیں محصور کردیا ہے، روزگار ختم ہو گئے ہیں اور کوئی انسانی ہمدردی کا سہارا نہیں بچا۔ بچوں کے بھوک سے بلکنے اور ماؤں کے کھانے چھوڑنے کی دل دہلا دینے والی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کا مقابلہ منفرد انداز میں کرنے والا نوجوان
راکھین پہلے ہی 2012 کے فسادات اور 2017 میں روہنگیا کی بڑے پیمانے پر ہلاکت و بے دخلی سے بری طرح متاثر تھا۔ 2023 میں فوج نے ارکان آرمی کو سپلائی روکنے کے لیے ریاست کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کردیا، جس سے ستوے شہر کا محاصرہ مزید سخت ہو گیا۔ اب شہر تک صرف سمندر یا فضائی راستے سے پہنچا جاسکتا ہے، کھیتوں میں دھان کی کٹائی بند ہوگئی ہے اور روہنگیا کو سمندر میں مچھلی پکڑنے کی اجازت بھی نہیں۔
کیمپ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ لوگ باہر نہیں جا سکتے، روزگار ختم ہو گیا ہے، قیمتیں پانچ گنا بڑھ گئی ہیں، اور زیادہ تر لوگ صرف اُبلے ہوئے آلو اور جڑیں کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔
فوجی بھرتیوں کا بوجھ بھی مقامی آبادی پر ڈال دیا گیا ہے۔ ستوے کے قریب ایک کیمپ میں مقیم محمد نے بتایا کہ روہنگیا خاندانوں کو یا تو مردوں کو جنگ میں بھیجنا پڑتا ہے یا پھر اُن کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اپنی امداد کی رقم دینا پڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار میں ہنگامی حالت میں توسیع، انتخابات مزید تاخیر کا شکار
ڈبلیو ایف پی کے مطابق راکھین میں تمام کمیونٹیز شدید معاشی دباؤ میں ہیں اور زندہ رہنے کے لیے خطرناک راستے اختیار کررہی ہیں، جن میں قرض بڑھانا، بھیک مانگنا، گھریلو تشدد، بچوں کا اسکول چھوڑنا، سماجی کشیدگی اور حتیٰ کہ انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہے۔
ادارے نے واضح کیا ہے کہ فنڈز کی کمی کئی بڑے ڈونر ممالک کی ذمہ داری ہے، تاہم امریکا کی جانب سے یو ایس ایڈ فنڈنگ میں 87 فیصد کمی کو بھی ایک اہم وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال امریکا نے ڈبلیو ایف پی کو تقریباً 4.5 ارب ڈالر فراہم کیے تھے جو عالمی حکومتی عطیات کا نصف تھا۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ نومبر میں ہی قحط کے خطرے‘ کی وارننگ دی تھی، لیکن 9 ماہ بعد بھی فنڈز کی شدید کمی اور ایک اور ہنگامی اپیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی عالمی صنعت کس بے رحمانہ ماحول میں کام کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ ڈبلیو ایف او قحط سالی میانمار وارننگ