پشاور ہائیکورٹ:فوجی عدالت سے سزا یافتہ ملزمان کی رہائی کیلئے دائر درخواستیں خارج
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ نے فوجی عدالت سے سزا یافتہ ملزمان کی سزا مکمل ہونے پر 382 بی کا فائدہ دے کر رہا کرنے کی دائر درخواستیں خارج کردیں جبکہ عدالت نے 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔تفصیلات کے مطابق ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ملزمان کا سزا مکمل ہونے پر رہائی کے لیے پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواستوں پر عدالت نے 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔عدالت نے ملزمان کی جانب سے 382 بی کا فائدہ دینے کے لئے دائر درخواستیں خارج کردی۔ فیصلے کے مطابق ملزموں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں دی گئیں، آرمی ایکٹ سپیشل لا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ملزمان کو سیکشن 382 بی کا فائدہ دیا جا چکا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ملزمان کو سپیشل لا کے تحت سزائیں دی گئی ، عام قانون پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق سزا مکمل ہونے کے باوجود ملزمان جیل میں ہیں، سزا مکمل ہونے کے باوجود رہائی نہ ہونا آئین کے آرٹیکل 9، 13، 14، 25 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ملٹری کورٹ سزا اس وقت سے شروع ہوگی جس دن کارروائی مکمل ہوکر دستخط ہوتے ہیں۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کو 382 (بی)کو فائدہ دیا گیا لہذا ملزمان کی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔واضح رہے کہ ملٹری کورٹ نے ایک مجرم کو عمرقید، دوسریکو 20 سال اور تیسریکو 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔سپریم کورٹ نے 7 مئی کو سیویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا فیصلہ سناتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کردیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: درخواستیں خارج سزا مکمل ہونے ملٹری کورٹ ملزمان کی کے مطابق عدالت نے
پڑھیں:
ججز اپنی لڑائیاں خود لڑیں‘ وکلا ساتھ نہیں ہیں‘ سیکرٹری جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ بار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(خبرایجنسیاں ) اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل منظور احمد ججہ نے کہا ہے کہ ججز اپنی لڑائیاں خود لڑیں، وکلا ان کے ساتھ نہیں ہیں، ہائی کورٹ کی عمارت کہیں منتقل نہیں ہو رہی، ابھی مزید استعفے بھی آئیں گے، 2021 میں ججز نے اپنا الگ دھڑا بنا کر وکلا کو جیلوں میں ڈالا جس سے سبق سیکھ لیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے منظور احمد ججہ نے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا، ہم وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقریب حلف برداری میں گئے اور انہیں ویلکم کیا، مختلف آپشنز تھے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کو کہاں بٹھایا جائے۔منظور ججہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے وفاقی آئینی عدالت کو عدالتوں کی پیشکش کی، وفاقی آئینی عدالت کے ججز کو عارضی طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ بلڈنگ منتقل کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کی بلڈنگ شاہراہ دستور سے کہیں اور نہیں منتقل ہو رہی۔