پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور طالبان کے درمیان پسِ پردہ رابطے سامنے آ گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 16 May, 2025 سب نیوز

کابل (سب نیوز)بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے نائب وزیر داخلہ اور اہم عسکری رہنما ابراہیم صدر نے حالیہ دنوں انڈیا کا خفیہ دورہ کیا، جس دوران انھوں نے انڈین حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان طالبان حکومت کے نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر نے پاکستان اور انڈیا کے ایک دوسرے پر حملوں اور کشیدگی کے عروج پر خفیہ طور پر انڈیا کا سفر کیا۔اس دوران بی بی سی پشتو کے مطابق ابراہیم صدر نے اس دورے کے دوران انڈین حکام سے ملاقات بھی کی ہے۔
ابراہیم صدر کو طالبان رہنما ملا ہبت اللہ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور انھیں طالبان حکومت کے اہم اور اسٹریٹیجک سکیورٹی کے امور سے متعلق فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے۔انڈین میڈیا نے اس دورے کو اہم قرار دیا ہے کیونکہ طالبان کے ایک سینیئر اہلکار ایک ایسے وقت میں انڈین حکام سے بات چیت کے لیے انڈیا کا دورہ کر رہے تھے جب 22 اپریل کو پہلگام پر حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
انڈین اخبار سنڈے گارڈیئن نے لکھا ہے کہ طالبان کے ایک ایسے سینئر عہدیدار کے ساتھ خفیہ مواصلاتی چینل کھولنا جو پاکستان کے بارے میں تنقیدی نظریات رکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنے نقطہ نظر پر نظرِثانی کر رہا ہے۔انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ ایکس پر لکھا کہ میری آج شام افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی۔ پہلگام میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت پر میں ان کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں نے افغانستان کے لوگوں کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری اور ان کی ترقیاتی ضروریات کے لیے ہماری مسلسل حمایت پر زور دیا۔ ہم نے تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی بات کی۔خیال رہے کہ ابراہیم صدر طالبان کے سرکردہ کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے غیر ملکی افواج اور سابق افغان حکومت کے خلاف برسوں کی جنگ کے دوران نام نہاد ہلمند کونسل کی قیادت کی تھی۔ وہ امریکی پابندیوں کا شکار طالبان رہنماں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعافیہ صدیقی کیس تحریک بن چکا، پٹیشن ختم کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ عافیہ صدیقی کیس تحریک بن چکا، پٹیشن ختم کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ 26ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک موخر کرنے کی استدعا، سپریم کورٹ میں 3متفرق درخواستیں دائر آپریشن بنیان المرصوص پاکستانی افواج کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے ، چیئرمین سی ڈی اے مفتی قوی کو لال مسجد سے نکال دیا گیا ، تفصیلات ، ویڈیو سب نیوز پر ۔۔۔۔۔ حالیہ ہفتے 18 اشیا مہنگی ہوئیں، 12اشیا کی قیمتوں میں کمی، ادارہ شماریات ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کا الخدمت فانڈیشن پاکستان کے مرکزی دفتر کا دورہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: حملے کے بعد طالبان کے کے درمیان

پڑھیں:

پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ

تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مسلح گروہوں کے نفوذ کا سرچشمہ بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردی کے بڑے حصے کو افغانستان سے آنے والے گروہوں کے آمد و رفت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ تسنیم نیوز کے علاقائی دفتر کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر افغانستان کو اسلام آباد کی سیکیورٹی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی بڑی تعداد میں بدامنی اور دہشت گرد حملوں کی جڑ افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے۔ انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کئی برسوں سے افغانستان کی سرزمین سے مختلف مسلح گروہوں کی دراندازی کی قیمت ادا کر رہا ہے، تاہم اسلام آباد اس قابل ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے ہر حملے کا مناسب جواب دے سکے۔

واضح رہے کہ رانا ثنا اللہ اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی سرحدوں سے مختلف گروہوں کی دراندازی کی وجہ سے پاکستان سنگین دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرحدی سطح پر نئے اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی پٹی پر ایک محفوظ بفر زون قائم کرنے کو سرحدی کنٹرول مضبوط کرنے اور مسلح گروہوں کی آمد و رفت کو روکنے کے ممکنہ آپشنز میں سے ایک قرار دیا تھا۔

یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی حکام طالبان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ مسلح گروہوں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان، کو اپنی سرزمین پر منظم ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ طالبان ان الزامات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں اور مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے ملٹری کالج پر حملہ اور اسلام آباد میں ہونے والا دھماکہ دونوں افغان عناصر کی شمولیت سے انجام پائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان لفظی اور سیکیورٹی کشیدگی مزید بڑھ گئی۔ پاکستان اور طالبان کے تعلقات اگست 2021 میں طالبان کی کابل واپسی کے بعد ابتدا میں ایک تدبیراتی ہم آہنگی کے ساتھ شروع ہوئے تھے، لیکن پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے ساتھ یہ تعلقات تیزی سے گہری بداعتمادی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ قطر اور ترکی میں دونوں جانب سے کئی مذاکراتی دور ہوئے، مگر اب تک کوئی واضح یا قابلِ ذکر پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • ائر انڈیا آیندہ برس سے چین کے لیے پروازیں شروع کرے گی
  • اہم ریاستی اداروں پر 2بڑے سائبر حملے ناکام بنائے جانے کا انکشاف
  • الیکشن کمیشن آف انڈیا بی جے پی کیلئے کام کررہا ہے، کانگریس
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
  • اسد قیصر کی اپوزیشن رہنماؤں کے وفد کے پمراہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس حملے پر وکلا سے تعزیت و اظہار ہمدردی
  • پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
  • جادو ٹونے سے چلنے والی پی ٹی آئی حکومت کی حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے، مریم نواز