برآمدات، سرمایہ کاری کا فروغ: وزیراعظم نے درآمدی محصولات میں کمی کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی، نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے برآمدات اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے درآمدی محصولات میں نمایاں کمی کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی معاشی بہتری ان کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت مضبوط معیشت کے حصول، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور مہنگائی کے دیرپا اور مکمل خاتمے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ ملکی و غیر ملکی ماہرین معیشت سے سیر حاصل مشاورت کے بعد بنیادی معاشی اصلاحات کے لیے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت نیشنل ٹیرف پالیسی کے حوالے سے اہم اجلاس وزیر اعظم ہائوس میں ہوا جس میں وزیر اعظم نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے درآمدی محصولات (ٹیرِف) میں بتدریج مگر نمایاں کمی کی منظوری دے دی ہے۔ اس اقدام کو معاشی بہتری کے حصول کی جانب ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے جو کہ برآمدات پر مبنی ترقی کو ممکن بنائے گا۔ زیرِ نظر فیصلے سے نہ صرف بے روزگاری پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ مہنگائی کی شرح کو بھی قابو میں رکھا جا سکے گا۔ مزید برآں اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت عوام کو روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار مہیا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وزیرِ اعظم نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت مضبوط معیشت کے حصول، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور مہنگائی کے دیرپا اور مکمل خاتمے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی۔ ملکی و غیر ملکی ماہرینِ معیشت سے سیر حاصل مشاورت کے بعد بنیادی معاشی اصلاحات کے لیے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ اجلاس میں وزیر اعظم نے اضافی کسٹمز ڈیوٹی (جو اس وقت 2 فیصد سے 7 فیصد کے درمیان ہے) اور ریگولیٹری ڈیوٹی (جو اس وقت 5 فیصد سے 90 فیصد تک ہے) کو اگلے چار سے پانچ سال میں مکمل طور پر ختم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وزیراعظم نے کسٹمز ڈیوٹی کو زیادہ سے زیادہ 15 فیصد تک محدود کرنے کے حق میں فیصلہ کیا ہے، جب کہ فی الحال بعض اشیاء پر یہ شرح 100 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی کی شرحوں (سلیبز ) کو چار تک محدود کر دیا گیا ہے، جس سے درآمدات سے متعلق قانونی پیچیدگیوں میں نمایاں کمی آئے گی اور مختلف صنعتوں کو برابر کے مواقع میسر آ سکیں گے۔ وزیر اعظم کے اس تاریخی فیصلے سے معیشت غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھلے گی اور ملکی صنعتوں کو خام مال، درمیانی اشیاء اور سرمایہ جاتی سامان بآسانی اور سستے داموں دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ مسابقت میں اضافے کی وجہ سے مقامی صنعتیں زیادہ موثر اور مسابقتی بنیں گی، جو ملک کے لیے برآمدی آمدنی بڑھانے میں مدد دے گا۔ اس طرح مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں کمی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے اس تجویز کے تمام پہلوئوں کا بغور جائزہ لیا، ٹیرف میں کمی نہ صرف جاری کھاتے کے خسارے کو مستحکم کرے گی بلکہ کسٹمز ڈیوٹی سے زیادہ محصولات حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ اسی اجلاس میں وزیر اعظم نے ایک عمل درآمد کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ وزیر اعظم نے اعادہ کیا کہ ملک کی معاشی بہتری ان کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف سے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے جنگ بندی کو برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ کہا بھارتی الزامات بلااشتعال، جارحیت کے سامنے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور کہا ہر قیمت پر اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کریں گے۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم نے کنگ چارلس سوم اور برطانوی وزیراعظم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار اور پاک برطانیہ تعلقات کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ برطانوی وزیر خارجہ نے جنگ بندی مفاہمت پر وزیراعظم کو مبارکباد دی۔ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ برطانیہ خطے میں امن و استحکام کیلئے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
عوام پر بھاری ٹیکسوں کے بوجھ کے باوجود ٹیکس ہدف حاصل نہ ہوا
اسلام آباد:عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے باوجود حکومت 129 کھرب روپے سے زائد ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی، مجموعی طور پر محصولات میں گزشتہ سال کی نسبت 26 فیصد یا24.3 کھرب روپے زائد اضافہ ہوا۔
وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے بغیر منی بجٹ129کھرب سے زائد وصولیاں یقینی بنانے کا عندیہ دیا تھا، مبصرین کے مطابق منی بجٹ کے بغیر محصولات کے ہدف کا حصول ممکن نہیں تھا۔
عبوری اعدادوشمار کے مطابق ایف بی آر نے ختم ہونیوالے مالی سال میں117.3 کھرب روپے کی وصولیاں کی، جو ہدف سے تقریباً 12 کھرب روپے کم ہیں۔
حکومت نے مالی سال2024-25 کے دوران ٹیکس جی ڈی پی تناسب10.6 فیصد تک بڑھانے کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا، جوکہ 10.2 فیصد رہا۔ ٹیکس حکام کے مطابق بجٹ میں13 کھرب کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کے باوجود وصولیاں ہدف سے12 کھرب روپے کم رہیں۔
اس ناکامی نے سابق چیئر مین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کی پیش گوئی درست ثابت کی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود وصولیاں118 کھرب سے بڑھ نہیں سکتیں۔
حکومت نے 129.7 کھرب کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلئے تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ، پیکٹ دودھ سمیت لگ بھگ تمام اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگایا، مگر غیر حقیقی ٹیکس ہدف، معاشی سست روی اور شرح مہنگائی میں مسلسل کمی محصولات میں26 فیصد اضافہ ممکن نہ بنایا جا سکا،تاجر دوست سکیم کے تحت دکان داروں سے50 ارب روپے انکم ٹیکس حاصل نہ ہوا۔