Express News:
2025-10-04@20:33:28 GMT

گفتگو بند نہ ہو، بات سے بات چلے

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

امریکا کے صدر ٹرمپ کی مداخلت پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دفعہ پھر جنگ بندی ہوگئی۔ اب دونوں ممالک کے سفارت کار کسی غیر جانبدار مقام پر مذاکرات کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے ایک دفعہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازع کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے پر مختصر جنگ میں کس ملک نے کتنی برتری حاصل کی اس بارے میں دفاعی مبصرین مستقل اپنی آراء کا اظہار کررہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف آباد لاکھوں خاندان ایک دفعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور مختصر لڑائی میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی اور پانچ چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ سوائے 71ء کی جنگ کے باقی سب جنگیں کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں۔ تاریخ کے صفحات سے مدد لی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ابھی دونوں ممالک آزاد ہوئے ہی تھے کہ مہاراجہ کشمیر کے اقدامات کے باعث ریاست کشمیر میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی۔ مہاراجہ کشمیر نے بھارت سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے شرط عائد کی کہ مہاراجہ کشمیر بھارت سے الحاق کا اعلان کریںگے یوں بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی۔

پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ قبائلی لشکر بھی بھارتی فوج سے لڑنے کے لیے مدد کو آگئے۔ جب جنگ شدت اختیار کرگئی تو بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گئے۔ سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے لیے تین قراردادیں قرارداد نمبر36، قرارداد نمبر 39 اور قرارداد نمبر 47 منظور کیں۔ قراردادوں کا مفہوم یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں 30 دن کے اندر واپس بلالیں۔ بھارت کشمیر میں آزادانہ ریفرنڈم کا انعقاد کرے۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی مدد لی جائے مگر تاریخ شاید ہے کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ بھارت پاکستان کے درمیان لیاقت نہرو معاہدہ سمیت کئی معاہدے ہوئے مگر کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔

جب جنرل ایوب خان کی حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات اور تیسری دنیا کے ممالک کے اتحاد کے لیے کوششیں تیز کیں۔ انھوں نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو پاکستان کے بڑے حامیوں میں شامل تھے۔

چین کے چیئرمین ماؤ اور وزیر اعظم چواین لائی کی بھی پاکستان کو حمایت حاصل تھی۔ 60کی دہائی میں چین اور بھارت کے درمیان تبت کے تنازع میں جنگ ہوچکی تھی۔ دونوں ممالک نے آپس میں ہی جنگ بندی اور مسئلہ کے حل کے لیے اتفاق کیا تھا، پھر کشمیر میں آپریشن جیرالٹر شروع ہوا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ سرحد پار کر کے گوریلے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں لگ گئے۔ آپریشن جبرالٹر شروع ہوا۔

جب جنگ بڑھی تو کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی فوجوں میں گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔ بھارت نے 6 ستمبر 1965 کو لاہور ، سیالکوٹ اور دیگر مقامات پر حملے کردیے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سترہ دن تک خوب لڑائی ہوئی۔ بہرحال سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرادی۔ سوویت یونین کے وزیر اعظم کوسجن نے بھارت کے وزیر اعظم شاستری اور پاکستان کے صدر ایوب خان کو تاشقند میں مدعو کیا جہاں کئی دن تک مذاکرات ہوئے اور دورے کے آخری دن معاہدہ تاشقند پر اتفاق ہوا۔ اسی رات وزیر اعظم شاستری دل کا دورہ پڑ جانے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

اس معاہدہ کے تحت آپریشن جبرالٹر تاریخ کے صفحات پر کھوگیا۔ دونوں ممالک نے اپنی اپنی فوجیں سیز فائز لائن پر لے جانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو قبول نہیں کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ معاہدے میں خفیہ شقیں شامل ہیں جن کے بارے میں وہ مناسب وقت پر انکشاف کریں گے ۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت تک بھی ان خفیہ شقوں کا انکشاف نہ ہوسکا۔

1971میں جب جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ جنرل یحییٰ خان نے آپریشن شروع کیا۔ عوامی لیگ کے رہنما کرنل عثمانی نے مکتی باہنی کو منظم کیا۔ بھارتی فوج مکتی باہنی کی مدد کے لیے سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی اور 16دسمبر 1971کو کمانڈر جنرل نیازی نے بھارت کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

 90 ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے، بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو صدر بن گئے۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے صدر ذوالفقار علی بھٹوکو شملہ میں مذاکرات کے لیے مدعو کیا، یوں معاہدہ شملہ ہوا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر ایک اور معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں 90 ہزار فوجی قیدی رہا ہوئے۔ بھارت نے پاکستان کا 10 ہزار مربع میل علاقہ واپس کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہوئے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے ویزے کا طریقہ کار آسان ہوا۔

 جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے ممکنہ امکانات کوختم کیا۔ جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو 1988میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئیں تو ان کی دعوت پر اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کئی معاہدے ہوئے۔

وزیر اعظم نواز شریف کے دور سے دوستی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعہ لاہور آئے اور مینار پاکستان پر حاضری دی اور پاکستان کی سلامتی سے یکجہتی کا اظہار کیا، یوں اب سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ دہلی اور لاہور کے درمیان دوستی بس چلنے لگی۔ بھارت نے تجارت کے شعبہ میں پاکستان کو Most Favourite Nation کی فہرست میں شامل کرلیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفر کی رکاوٹیں بہت کم ہوئیں مگر پھر معرکہ کارگل ہو گیا۔بگڑتے حالات کو سنبھالنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف واشنگٹن گئے تو صدر کلنٹن کی دعوت کے باوجود واجپائی واشنگٹن نہیں آئے۔

صدر کلنٹن نے ٹیلی فون کر کے واجپائی کو معاہدے کی شرائط سنائیں۔ جنرل پرویز مشرف خود اقتدار میں آگئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ آگرہ سمٹ میں Cross Border Terrorismکے نکتہ پر اتفاق نہ ہونے پر آگرہ سمٹ ناکام ہوئی لیکن دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری رہے۔ صدر پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے ممکنہ چھ نکات پر مشتمل حل پیش کیے۔ مگر پھر وکلاء تحریک چل گئی۔

مشرف دور میں دونوں ملک کے صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، ججوں، وکلاء، خواتین اور سیاسی کارکنوں کے درمیان رابطے بڑھ گئے۔ دونوں ممالک نے ویزے کی پابندیاں نرم کردی تھیں ۔ مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان بس چلنے لگی اور کشمیر کے دونوں حصوں کے مابین تجارت شروع ہوگئی ۔ مگر پھر ممبئی میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد سب کچھ رک گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بمبئی واقعہ کی تحقیقات کے لیے ڈی جی آئی ایس آئی کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ پھر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوگئیں۔

 میاں نوازشریف جب 2013 میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لاہور آئے، جامع مذاکرات ہوئے مگر پھر میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے معزول کردیا۔ 2019 میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دروازے بند ہوئے۔ اب دوبارہ اس خطے میں امن کے لیے پیش قدمی ہوئی ہے ۔ ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے یہ اشعار دونوں ممالک کے امن کے خواہاں عوام کی خواہش کی ترجمانی کرتے ہیں:

گفتگو بند نہ ہو

بات سے بات چلے

صبح تک شام ملاقات چلے

ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان ذوالفقار علی بھٹو سلامتی کونسل کے وزیر اعظم اور پاکستان پاکستان کے بھارت نے نے بھارت کشمیر کے مگر پھر کے لیے

پڑھیں:

آزاد کشمیر: وزیراعظم کی ہدایت پر حکومتی ٹیم کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) وزیراعظم کی ہدایت پر حکومتی ٹیم نے آزاد کشمیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کا باضابطہ آغاز کردیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے آزاد کشمیرکی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ناخوشگوار واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تفصیل کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی اعلیٰ سطح کمیٹی نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کر دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے آزاد کشمیر کی صورتحال پر نوٹس لیے جانے کے بعد مظاہرین سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی مظفرآباد پہنچی ہے جو مسائل کے فوری اور دیرپا حل کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کی کمیٹی میں وفاقی وزراء اور پیپلز پارٹی کی قیادت موجود ہے۔ راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں قائم توسیع شدہ کمیٹی میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، امیر مقام، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ اور سردار مسعود احمد، وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوار اور رانا ثناء شامل ہیں۔ طارق فضل چوہدری نے ایکس پر جاری بیان میں بتایا کہ پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے آج مظفرآباد میں آزاد جموں و کشمیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ مظفرآباد روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا اس وقت ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کے امن اور استحکام کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہاکہ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکراتی عمل بحال کیا جارہا ہے اور جو مطالبات رہ گئے ہیں ان پر بات چیت ہوگی۔ راجہ پرویز اشرف نے بتایا کہ مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے، کوشش ہے جتنا جلد ممکن ہو صورتحال کو معمول پر لایا جائے۔ قبل ازیں وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مظاہرین کے ساتھ تحمل سے پیش آنے اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی سے اجتناب کی ہدایت کی ہے اور حکومتی سطح پر مسئلے کے پرامن حل کے لیے مذاکراتی کمیٹی میں توسیع کر دی۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورت حال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وہاں کے شہریوں سے پْر امن رہنے کی اپیل کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے تاہم مظاہرین امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ وزیر اعظم نے ایکشن کمیٹی کے ارکان اور قیادت سے اپیل کی کہ وہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے تعاون کریں۔ کمیٹی اپنی سفارشات اور مجوزہ حل بلا تاخیر وزیراعظم آفس کو بھجوائے گی تاکہ مسائل کے فوری تدارک کے لیے اقدامات کئے جا سکیں۔ وزیر اعظم نے وطن واپسی پر مذاکرات کے عمل کی خود نگرانی کرنے کا اعلان کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے آزاد کشمیر کے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ اپنے ایکس اکائونٹ پر جاری پیغام میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاج کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تین نسلوں کی جدوجہد پر غور کریں، جو آپ کو میسر ہے اس کا عشر عشیر کا بھی وہ تصور نہیں کر سکتے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے جمعرات کو پمز ہسپتال کا دورہ کیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے پمز ہسپتال میں آزاد کشمیر میں زخمی ہونے والے اسلام آباد پولیس اور آزاد کشمیر پولیس کے اہلکاروں کی عیادت کی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے ہسپتال انتظامیہ کو زخمی پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر داخلہ نے زخمی پولیس اہلکاروں کے جذبے اور بہادری کو سراہا۔اوورسیز ایم ایل اے محمد اقبال نے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی سے استعفا دے دیا۔ محمد اقبال نے کہا کہ شہری کی حیثیت سے سماجی منصوبوں پر کام جاری رکھوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیرِاعظم شہباز شریف آج ملائیشیا کے 3 روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہوں گے
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ
  •   وزیر اعظم شہباز شریف  اور   مولانا فضل  الرحمان کے درمیان ٹیلی فونک  رابطہ
  • وزیرِخارجہ اسحاق ڈار اور سعودی وزیرِخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی ٹیلی فونک گفتگو، غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • آزاد کشمیر میں پر تشدد احتجاج
  • وزیراعظم کا حافظ نعیم الرحمان کو ٹیلیفون، سینیٹر مشتاق سمیت اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں کی وطن واپسی پر گفتگو
  • کھیل میں سیاست، بھارت کے اس عمل سے قبل دونوں ممالک کے کھلاڑی کیسے ملتے تھے، خوبصورت ویڈیو وائرل
  • آزاد کشمیر: وزیراعظم کی ہدایت پر حکومتی ٹیم کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے مذاکرات
  • شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
  • آزاد کشمیر کی خراب صورتحال پر وزیراعظم پاکستان کا سخت نوٹس، مذاکرات کمیٹی کے ارکان میں اضافہ