اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 مئی 2025ء) دنیا میں خوراک کے بحرانوں کا سامنا کرنے والے 36 ممالک اور علاقوں میں 2016 کے بعد 80 فیصد آبادی ہر سال بلند درجہ غذائی قلت کا سامنا کرتی آ رہی ہے جبکہ 2023 اور 2024 کے درمیان تباہ کن غذائی عدم تحفظ سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

غذائی تحفظ سے متعلق اطلاعاتی نیٹ ورک (ایف ایس آئی این) کی عالمگیر غذائی بحرانوں پر تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 ممالک میں 6 سے 59 ماہ تک عمر کے 37.

7 ملین بچے خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

غذائی قلت کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منتخب کردہ 53 ممالک اور علاقوں میں 295.3 ملین لوگوں کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جو ان ممالک کی 22.6 فیصد آبادی ہے۔ Tweet URL

رپورٹ کے مطابق، یہ صورتحال نہ تو غیرمتوقع ہے اور نہ اس نے اچانک جنم لیا ہے۔

(جاری ہے)

دنیا بھر میں ایسے حالات کثیررخی اور باہم متعامل بحرانوں کا نتیجہ ہیں جن میں مسلح تنازعات سرفہرست ہیں۔ ان بحرانوں سے کوئی علاقہ محفوظ نہیں اور یہ کئی دہائیوں کی محنت سے حاصل ہونے والے ترقیاتی فوائد کو غارت کیے دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس بات کی ایک اور پختہ شہادت ہے کہ دنیا خطرناک طور سے بے سمت ہو چکی ہے۔

جنگ اور قحط

جولائی 2024 میں سوڈان کی ریاست شمالی ڈارفر میں واقع زمزم پناہ گزین کیمپ میں قحط پھیلنے کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے بعد آنے والے مہینوں میں ڈارفر خطے میں واقع دیگر پناہ گزین کیمپوں اور مغربی کوہ نوبا کے علاقوں میں بھی قحط کی اطلاع سامنے آئی اور دسمبر 2024 سے اب تک اس جنگ زدہ ملک کے پانچ دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے جبکہ 17 علاقے قحط کے دھانے پر ہیں۔

2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دنیا میں کسی جگہ قحط پھیلنے کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوڈان میں 20 ماہ سے جاری جنگ میں ایک کروڑ 30 لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ ان میں 30.4 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔

اس طرح، مسلح تنازع کے باعث ملک کو مختصر وقت میں خوراک کے ایسے شدید بحران نے گھیر لیا ہے جس کی اس کے ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

مسلح تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی

بڑھتے ہوئے مسلح تنازعات گزشتہ سال غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا ایک بڑا سبب رہے۔ جمہوریہ کانگو، ہیٹی، سوڈان، جنوبی سوڈان، میانمار اور فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ کی پٹی اس کی نمایاں مثال ہیں۔

غزہ میں آبادی کے اعتبار سے غذائی عدم تحفظ کی شرح دنیا میں سب سے بلند ہے جہاں گزشتہ سال تمام لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہا۔

رواں سال مارچ میں امداد کی ترسیل بند ہونے سے یہ حالات مزید ہولناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بھی غذائی قلت میں اہم کردار ہے کہ بدلتے موسمی حالات زراعت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سوڈان میں گزشتہ سال بارشوں کی کمی کے باعث خوراک کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا تھا جبکہ نمیبیا اور جنوبی افریقی خطے کے دیگر ممالک میں سیلاب کے باعث فصلوں کو نقصان پہنچنے سے غذائی بحران پیدا ہوا۔

انسانیت کی ناکامی

رپورٹ کے مطابق، معاشی دھچکے بشمول مہنگائی اور تجارتی جنگوں کا بھی غذائی بحران میں شدت لانے میں اہم کردار ہے۔ شام جیسے علاقوں میں یہ صورتحال واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے جہاں طویل مدتی عدم استحکام کے باعث معاشی حالات دگرگوں ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس سطح پر غذائی عدم تحفظ کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی اور اسے نظام کی ناکامی کے بجائے انسانیت کی ناکامی کہنا مناسب ہو گا۔

غذائی امداد بند ہونے کا خدشہ

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے کہا ہے کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث امدادی خوراک کی تقسیم کا ہر پہلو متاثر ہو رہا ہے اور ادارے کی جانب سے دشوار گزار بحران زدہ علاقوں میں فراہم کی جانے والی خوراک کی مقدار میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو غذائی مدد کی فراہمی بڑی حد تک سرے سے ہی بند ہو جانے کا خدشہ ہے۔

عطیہ دہندگان کی جانب سے امدادی مالی وسائل میں کی جانے والی حالیہ کمی کے باعث دنیا بھر میں مدد کی فراہمی منفی طور پر متاثر ہو گی۔ اس صورتحال میں کفایتی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے جس میں نچلی سطح پر استحکام کے لیے طویل مدتی اقدامات اور امداد فراہم کرنے کی صلاحیتوں کو ترقی دینا لازم ہے۔پائیدار زراعت پر سرمایہ کاری

سنڈی مکین کا کہنا ہے کہ غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے امدادی اور ترقیاتی سرمایہ کاری کو بہتر طور سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اور غذائی بحرانوں کو وقتی دھچکوں کے بجائے نظام کی ناکامی کے طور پر دیکھنا ہو گا۔

گزشتہ سال ستمبر میں طے پانے والے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے مستقبل میں 21 ویں صدی میں غذائی عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات کا تذکرہ بھی ہے جس میں مزید مستحکم، مشمولہ اور پائیدار غذائی نظام قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اسی بات کو لے کر 'ایف اے او' پائیدار زراعت پر سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے کہہ رہا ہے جس پر براہ راست غذائی امداد کی فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات سے چار گنا کم خرچ آتا ہے۔

بلاجواز بھوک

'ایف ایس آئی این' کی رپورٹ کے بارے میں سیکرٹری جنرل نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ غذائی نظام کا جائزہ لینے کے لیے جولائی میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس عالمی برادری کے لیے ان مسائل سے نمٹنے کا موقع ہو گا جن کا تذکرہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ 21ویں صدی میں بھوک اور قحط کا کوئی جواز نہیں۔ خالی پیٹ لوگوں کو مدد سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اور ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا ہے کہ علاقوں میں گزشتہ سال لوگوں کو خوراک کی کا سامنا کے باعث کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے

وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار ، کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے 8ممالک نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کے فلسطین بارے20نکاتی ایجنڈے کا خیر مقدم کیا ہے تو حکومتِ پاکستان کے اِس اقدام کی تعریف کی جائے ، نہ کہ اِس کی تنقیص۔‘‘

ممکن ہے ڈار صاحب درست ہی کہتے ہوں ، مگر جب پاکستانی عوام آئے روز مہنگائی در مہنگائی کی ہلاکت خیز چکی میں پِس رہے ہوں تو عوام کسی بھی حکومتی اقدام کی تعریف کریں تو کیونکر؟

اب دیکھئے اکتوبر کا مہینہ طلوع ہوتے ہی شہباز حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی لٹر 4روپے سے زیادہ اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا جو نیا بم گرایا ہے ، اِس کی موجودگی میں پاکستانی عوام اِس حکومت کی تحسین و تعریف کیسے کر سکتے ہیں؟

پٹرول کی قیمت اب269روپے فی لٹر ہو گئی ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں نئے اضافے سے مہنگائی میں نئے سرے سے اضافہ ہُوا ہے ۔ حکومتیں اور حکمران مگر سمجھتے ہیں کہ جس طرح اُنہیں ہمہ دَم بڑھتی مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا، اِسی طرح عوام بھی مہنگائی سے متاثر نہیں ہو رہے ۔

مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اگلے روز چکوال میں فرمایا:’’ حکومت ملی تو خزانہ خالی تھا۔ اب بھرنا شروع ہو چکا ہے ۔ جب سے ہم اقتدار میں آئے ہیں ، ملک کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں۔‘‘درست فرمایا ہے ۔ کیا حکومتی خزانہ پٹرول، ڈیزل ، آٹے ، چینی اور گھی کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کرکے بھرا جا رہا ہے ؟

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے عوام سے چند دن قبل، یو این جی اے میں اپنے خطاب میں، ایسی ہی غلط بیانی کی: ’’ جب سے مَیں اقتدار میں آیا ہُوں ، امریکا بھر میں مہنگائی اور خورونوش کی قیمتوں میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے‘‘ ۔

جونہی اُن کی تقریر اختتام کو پہنچی ، سی این این کے تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کے خطاب کی سرجری کرتے ہُوئے امریکی عوام کو بتایا کہ امریکی صدر نے سراسر جھوٹ بولا ہے۔ امریکا میں مہنگائی کم ہونے کی بجائے ، مزید بڑھی ہے ۔ اِس مہنگائی کے کارن امریکی عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں ۔

امریکی صدر شائد نہیں جانتے تھے کہ اُن کی تقریر ’’دلپذیر‘‘ سُننے اور دیکھنے والے کروڑوں افراد بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی کا شعر ہے:بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا/ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں! قیامت کی نظر رکھنے والوں نے ٹرمپ کو آئینہ دکھا کر اُنہیں امریکا ہی میں نہیں، دُنیا بھر میں نادم کر دیا ہے ۔

ٹرمپ صاحب کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اِس بات کی قطعی پروا نہیں ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے اُن کے دعوے کس قدر بے بنیاد اور بودے ہیں!

سب کچھ جانتے ہُوئے بھی ہمارے حکمران اور اُن کے دائیں بائیں کھڑے کارندے مسلسل جھوٹ الاپ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا گراف بہت نیچے آگیا ہے ۔

زمینی حقائق مگر اِن سرکاری درباری دعوؤں کے برعکس ہیں ۔حکمران مہنگائی میں ’’خاصی کمی‘‘ کا دعویٰ شائد اس لیے کرتے ہیں کہ وہ خود اور اُن کی بیگمات بازار سے سودا سلف لانے کا کبھی تکلّف ہی نہیں کرتے ۔

اگر حکمران خود دکانوں پر جائیں تو اُنہیں ’’لون مرچ‘‘ کے آسمانوں تک پہنچے داموں کی حدت اور شدت کی ’’لو‘‘ لگ جائے ۔ عالمی ادارے ہمارے حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس اعتراف کررہے ہیں کہ ’’ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں 26فیصد اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

یہ اعدادو شمار عالمی بینک کی جانب سے بتائے گئے ہیں اور اِنہیں تمام اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔

بقول ورلڈ بینک: یہ مہنگائی پچھلے تین برسوں کے دوران مزید اور مسلسل بڑھتی چلی گئی ہے ۔ اور یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران پی ڈی ایم اور نون لیگ کی مسلسل حکومت رہی ہے۔

اور اِن حکومتوں کے سربراہ شہباز شریف رہے ہیں ۔ ساتھ ہی معاشی تھنک ٹینک (Economic Policy and Business Development)نے پاکستانی قرضوں پر ایک رپورٹ جاری کرتے ہُوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’پاکستان کا ہر شہری 3لاکھ18ہزار252روپے کا مقروض ہے ۔ ایک عشرہ قبل پاکستان کا ہر شہری 90ہزارروپے کا مقروض تھا۔‘‘

لاریب شہباز حکومت مہنگائی کو لگام دینے اور عوام کو متوقع ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوتی چلی جارہی ہے۔ حکمرانوں اور اُن کے سنگی ساتھیوں کے غیر ملکی دَورے( جن میں ہردَورے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں) مگر رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

بھاری بھر کم وفد کے ساتھ ایک غیر ملکی دَورہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار ہو جاتا ہے ۔ پاکستان ایسا مفلس ترین اور غیر ملکی قرضوں میں ڈُوبا ملک کیا ایسے مہنگے غیر ملکی مسلسل دَوروں کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟

حکمرانوں کے اِن غیر ملکی دَوروں سے غربت کے مارے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ستمبر2025کے تیسرے ہفتے UNGA کے سالانہ اجلاس میں اگر بھارتی وزیر اعظم نہیں پہنچے تو بھارتی عوام کو کتنا نقصان پہنچا ہے ؟

اور اگر ہمارے وزیر اعظم صاحب بھاری تر وفد اور اپنے منظورِ نظر ساتھیوں کے ساتھ UNGAاور واشنگٹن پہنچے تو یہ ایک عام غریب پاکستانی کے لیے کتنا مفید ثابت ہُوا ؟ دو ہفتوں کو محیط وزیر اعظم کے تازہ غیر ملکی دَورسے ایک عام غریب پاکستانی کا کیا بھلا ہُوا؟

ملک میں اِس وقت آٹا ، چینی ،چاول، گھی، دالوں وغیرہ کے نرخوں میں مسلسل کمر توڑ مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ آٹے اور چاول کی نئی قیمتیں تو ہوشربا ہیں۔ اوپر سے یہ ’’نوید‘‘ بھی سُننے کو مل رہی ہے کہ اِس بار ملک بھر میں گندم کی فصل کمتر کاشت ہوگی کہ سیلابوں نے اکثر زرعی زمینوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

اِسی خدشے کے پس منظر میں نون لیگی وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی ، رانا تنویر، نے کہا ہے کہ ’’اگلے سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔‘‘

گندم درآمدگی کا مطلب یہ ہے کہ آٹے کی قیمت میں مزید اضافہ ۔ وطنِ عزیز میں مہنگائی کی شرح میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے ، اِس کا اندازہ اِس ایک مثال سے بھی لگایا جا سکتاہے :آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن نے یکم اکتوبر کو بتایا ہے کہ’’ یکم جنوری 2025سے 30ستمبر2025 تک ، صرف9مہینوں میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک لاکھ34ہزار روپے اضافہ ہُوا ہے ۔‘‘

اب سونے کی قیمت فی تولہ 4لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔ اربوں کھربوں میں کھیلنے والے ہمارے حکمران مگر غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والے کروڑوں عوام کی مسلسل اجیرن ہوتی زندگیوں سے شائد آگاہ اور آشناہی نہ ہوں۔

مثال کے طور پر سیلابوں کی بنیاد پر مالی تباہی کا شکار غریب کسانوںاور ہاریوں کی دستگیری کی بات چھڑی ہے تو پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کے ’’آگو‘‘ ایک دوسرے کی تکذیب پر اُتر آئے ہیں ۔

مثلاً:بے نظیر انکم سپورٹ (BISP)کی سربراہ ( جو پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں) محترمہ روبینہ خالد مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہیں کہ ’’سیلاب زدگان (خاص طور پر سندھ کے)کی امداد BISP کے تحت کی جائے ‘‘۔

بلاول بھٹو سمیت ساری پیپلز پارٹی روبینہ خالد کی ہمنوا نظر آ رہی ہے ،جب کہ پنجاب حکومت کی ترجمان اور وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری ، روبینہ خالد اورپیپلز پارٹی کی قیادت کو صاف الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ’’(پنجاب اور سندھ میں) سیلاب متاثرین کو BISPکے تحت مدد فراہم نہیں ہو سکتی ۔

وزیر اعلیٰ (پنجاب ) ریلیف کارڈ کے تحت ہی پنجاب کے سیلاب زدگان کی مدد کی جائیگی ۔‘‘ حکمران طبقات کے مفاداتی تصادم میں اب بیچارے غربت وعسرت ، سیلابی پانیوں کے مارے اور مہنگائی زدہ عوام جائیں تو جائیں کہاں؟

متعلقہ مضامین

  • بالفور ڈیکلریشن میں اسرائیل جیسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں تھا، لارڈ روڈریک بالفور کا انکشاف
  • اسرائیلی غنڈہ گردی پر دنیا خاموش، صیہونی وزیر کا فلوٹیلا کے قیدیوں کو دہشتگردوں جیسی حالت میں رکھنے کا اعلان
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ، سالانہ شرح 4.07 فیصد ریکارڈ
  • بھارت کی حرکتیں تیسرے درجے کی ٹیم جیسی ہیں، باسط علی
  • کاپوریٹو فارمنگ کے ذریعے دیہی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے اہم اقدامات
  • مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے
  • پاکستان اورایتھوپیا میں زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، خوراک کے تحفظ اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جائے گا
  • پاکستان میں دیہات کی زندگی شہروں سے زیادہ مہنگی ہوگئی
  • تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان غزہ و کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے: سلمان اکرام راجہ
  • آزاد کشمیر کی خراب صورتحال پر وزیراعظم پاکستان کا سخت نوٹس، مذاکرات کمیٹی کے ارکان میں اضافہ