غذائی عدم تحفظ اور قحط جیسی صورتحال میں سال بہ سال اضافہ، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 مئی 2025ء) دنیا میں خوراک کے بحرانوں کا سامنا کرنے والے 36 ممالک اور علاقوں میں 2016 کے بعد 80 فیصد آبادی ہر سال بلند درجہ غذائی قلت کا سامنا کرتی آ رہی ہے جبکہ 2023 اور 2024 کے درمیان تباہ کن غذائی عدم تحفظ سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
غذائی تحفظ سے متعلق اطلاعاتی نیٹ ورک (ایف ایس آئی این) کی عالمگیر غذائی بحرانوں پر تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 ممالک میں 6 سے 59 ماہ تک عمر کے 37.
رپورٹ کے مطابق، یہ صورتحال نہ تو غیرمتوقع ہے اور نہ اس نے اچانک جنم لیا ہے۔
(جاری ہے)
دنیا بھر میں ایسے حالات کثیررخی اور باہم متعامل بحرانوں کا نتیجہ ہیں جن میں مسلح تنازعات سرفہرست ہیں۔ ان بحرانوں سے کوئی علاقہ محفوظ نہیں اور یہ کئی دہائیوں کی محنت سے حاصل ہونے والے ترقیاتی فوائد کو غارت کیے دیتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ اس بات کی ایک اور پختہ شہادت ہے کہ دنیا خطرناک طور سے بے سمت ہو چکی ہے۔
جنگ اور قحطجولائی 2024 میں سوڈان کی ریاست شمالی ڈارفر میں واقع زمزم پناہ گزین کیمپ میں قحط پھیلنے کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے بعد آنے والے مہینوں میں ڈارفر خطے میں واقع دیگر پناہ گزین کیمپوں اور مغربی کوہ نوبا کے علاقوں میں بھی قحط کی اطلاع سامنے آئی اور دسمبر 2024 سے اب تک اس جنگ زدہ ملک کے پانچ دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے جبکہ 17 علاقے قحط کے دھانے پر ہیں۔
2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب دنیا میں کسی جگہ قحط پھیلنے کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوڈان میں 20 ماہ سے جاری جنگ میں ایک کروڑ 30 لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ ان میں 30.4 ملین لوگوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
اس طرح، مسلح تنازع کے باعث ملک کو مختصر وقت میں خوراک کے ایسے شدید بحران نے گھیر لیا ہے جس کی اس کے ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
مسلح تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیبڑھتے ہوئے مسلح تنازعات گزشتہ سال غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا ایک بڑا سبب رہے۔ جمہوریہ کانگو، ہیٹی، سوڈان، جنوبی سوڈان، میانمار اور فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ کی پٹی اس کی نمایاں مثال ہیں۔
غزہ میں آبادی کے اعتبار سے غذائی عدم تحفظ کی شرح دنیا میں سب سے بلند ہے جہاں گزشتہ سال تمام لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہا۔
رواں سال مارچ میں امداد کی ترسیل بند ہونے سے یہ حالات مزید ہولناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا بھی غذائی قلت میں اہم کردار ہے کہ بدلتے موسمی حالات زراعت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سوڈان میں گزشتہ سال بارشوں کی کمی کے باعث خوراک کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا تھا جبکہ نمیبیا اور جنوبی افریقی خطے کے دیگر ممالک میں سیلاب کے باعث فصلوں کو نقصان پہنچنے سے غذائی بحران پیدا ہوا۔
انسانیت کی ناکامیرپورٹ کے مطابق، معاشی دھچکے بشمول مہنگائی اور تجارتی جنگوں کا بھی غذائی بحران میں شدت لانے میں اہم کردار ہے۔ شام جیسے علاقوں میں یہ صورتحال واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے جہاں طویل مدتی عدم استحکام کے باعث معاشی حالات دگرگوں ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس سطح پر غذائی عدم تحفظ کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی اور اسے نظام کی ناکامی کے بجائے انسانیت کی ناکامی کہنا مناسب ہو گا۔
غذائی امداد بند ہونے کا خدشہاقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے کہا ہے کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث امدادی خوراک کی تقسیم کا ہر پہلو متاثر ہو رہا ہے اور ادارے کی جانب سے دشوار گزار بحران زدہ علاقوں میں فراہم کی جانے والی خوراک کی مقدار میں کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو غذائی مدد کی فراہمی بڑی حد تک سرے سے ہی بند ہو جانے کا خدشہ ہے۔
عطیہ دہندگان کی جانب سے امدادی مالی وسائل میں کی جانے والی حالیہ کمی کے باعث دنیا بھر میں مدد کی فراہمی منفی طور پر متاثر ہو گی۔ اس صورتحال میں کفایتی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے جس میں نچلی سطح پر استحکام کے لیے طویل مدتی اقدامات اور امداد فراہم کرنے کی صلاحیتوں کو ترقی دینا لازم ہے۔پائیدار زراعت پر سرمایہ کاریسنڈی مکین کا کہنا ہے کہ غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے امدادی اور ترقیاتی سرمایہ کاری کو بہتر طور سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اور غذائی بحرانوں کو وقتی دھچکوں کے بجائے نظام کی ناکامی کے طور پر دیکھنا ہو گا۔
گزشتہ سال ستمبر میں طے پانے والے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے مستقبل میں 21 ویں صدی میں غذائی عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹنے کے اقدامات کا تذکرہ بھی ہے جس میں مزید مستحکم، مشمولہ اور پائیدار غذائی نظام قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اسی بات کو لے کر 'ایف اے او' پائیدار زراعت پر سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے کہہ رہا ہے جس پر براہ راست غذائی امداد کی فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات سے چار گنا کم خرچ آتا ہے۔
بلاجواز بھوک'ایف ایس آئی این' کی رپورٹ کے بارے میں سیکرٹری جنرل نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ غذائی نظام کا جائزہ لینے کے لیے جولائی میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس عالمی برادری کے لیے ان مسائل سے نمٹنے کا موقع ہو گا جن کا تذکرہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ 21ویں صدی میں بھوک اور قحط کا کوئی جواز نہیں۔ خالی پیٹ لوگوں کو مدد سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اور ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا ہے کہ علاقوں میں گزشتہ سال لوگوں کو خوراک کی کا سامنا کے باعث کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
میرواعظ حسن افضل فردوسی کا دہلی کار دھماکے کے بعد کشمیر کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کے معروف حریت پسند رہنماء و جموں و کشمیر مسلم متحدہ محاذ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کیخلاف اسلامو فوبیا کے تحت شدید جنگ جاری ہے اور اب بھارت بھر میں بھی مسلمانوں اور خاص طور سے کشمیریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ متعلقہ فائیلیںمولانا حسن افضل فردوسی کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاوے پورہ سرینگر سے ہے، وہ سالہا سال سے کشمیر میں مزاحمتی تحریک سے وابستہ ہیں۔ مختلف تبلیغی محاذوں پر سرگرم ہیں، ساتھ ہی ساتھ میر واعظ شمالی کشمیر بھی ہیں۔ آپکے والد محترم کو تحریک آزادی سے وابستہ ہونے کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ مولانا حسن افضل فردوسی کو بھی برسہا برس بھارتی حکومت نے مختلف جیلوں میں قید رکھا ہے اور تحریک مزاحمت سے وابستگی کی بناء پر نوکری سے بھی معطل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا حسن افضل فردوسی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ علماء کرام کو معاشرہ سازی، امت سازش، اتحاد امت، باہمی رواداری و ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ وہ باہمی تضاد و منافرت میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کیخلاف اسلاموفوبیا کے تحت شدید جنگ جاری ہے اور اب بھارت بھر میں بھی مسلمانوں اور خاص طور سے کشمیریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔ میرواعظ شمالی کشمیر نے کہا کہ اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد ہے، جس نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے مختلف جیلوں میں کشمیری قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اس موقع پر ان سے لیا گیا خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial