فلسطینیوں کی جبری منتقلی کا منصوبہ؟ سعودی عرب نے دو ٹوک جواب دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
بغداد (ویب ڈیسک): سعودی عرب نے فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
یہ بیان عرب لیگ کے بغداد میں ہونے والے اجلاس کے دوران سعودی وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ عادل الجبیر نے دیا۔
عادل الجبیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور عام شہریوں پر حملے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ تمام ممالک کو مل کر فلسطینی عوام کے مصائب کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سعودی عرب نے اس بات کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کیا کہ فلسطینیوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکال کر کسی اور ملک میں آباد کیا جائے۔
سعودی وزیر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سعودی عرب ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے جس کی سرحدیں 1967 کی بنیاد پر ہوں اور جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کو لیبیا میں مستقل طور پر آباد کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی تھی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
قزاقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آستانہ (نٹرنیشنل ڈیسک) قزاقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی کا قانون نافذ ہوگیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اب کسی کو زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔پولیس کے بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون جبری شادیاں روکنے اور کمزور طبقوں، خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کے تحفظ کے لیے نافذ کیا گیا۔اس کے علاوہ دلہنوں کے اغوا پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق اس سے پہلے اگر کوئی اغوا کار متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے چھوڑ دیتا تو اس کا قانونی کارروائی سے بچنے کا امکان ہوتا تھا تاہم اب یہ سہولت ختم کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قزاقستان میں جبری شادیوں کے کیسوں کے قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ اس سے متعلق کرمنل کوڈ میں کوئی الگ شق موجود نہیں تھی۔ تاہم ایک رکن پارلیمان نے رواں سال کہا تھا کہ 3 سالوں میں پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئی ہیں۔یاد رہے کہ قزاقستان میں خواتین کے حقوق کا مسئلہ 2023 ء میں اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ایک سابق وزیر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا۔