شاہد آفریدی ایل او سی پر پہنچ گئے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی پاک فوج اور لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایل او سی کے سیکٹر لیپہ ویلی پہنچ گئے۔
شاہد آفریدی نے یاد گار شہدا پر حاضری دی اور علاقہ مکینوں سے سے ملاقاتیں کیں، انہوں نے بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ و گولہ باری سے متاثرہ علاقوں سمیت تباہ شدہ رہائشی مکانات کا معائنہ کیا اور نمائشی میچ میں بھی حصہ لیا۔ اس موقع پر شاہد آفریدی نے پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔
یہ بھی پڑھیں شاہد آفریدی کا پاک فوج سے بھرپور اظہار یکجہتی، کراچی میں ’پاکستان زندہ‘ باد ریلی
شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کشمیر کے لوگ پیار، محبت اور امن والے ہیں، جو بھارتی جارحیت میں پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستانی قوم کی طرف سے کشمیری عوام کا شکریہ ادا کرنے لیپہ سیکٹر آیا ہوں، بھارتی جارحیت کے دوران میڈیا کا مثبت کردار قابل تعریف ہے۔
شاہد آفریدی نے کہاکہ افواج پاکستان ہمیشہ امن کی خواہاں رہی ہیں، تاہم دفاع وطن میں اقدام اٹھانا مجبوری ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کشمیر کا ٹیلنٹ قابل فخر ہے، لیکن بدقسمتی سے ضائع ہو رہا ہے جس کے لیے ہمیں توجہ دینا ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر حکومت یہاں کرکٹ اکیڈمی قائم کرے تاکہ ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچ سکے۔
یہ بھی پڑھیں وزیر اعظم سے شاہد آفریدی کی ملاقات، آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر مبارکباد
شاہد آفریدی نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام آج بھی حق خودارادیت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا، عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم رکوائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایل او سی سابق کرکٹر شاہد آفریدی لیپہ سیکٹر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایل او سی سابق کرکٹر شاہد ا فریدی وی نیوز شاہد ا فریدی انہوں نے نے کہاکہ پاک فوج کے لیے
پڑھیں:
اسلامی فوجی اتحاد اور او آئی سی ‘ زندہ جسم، مردہ گھوڑے
تاریخ کا اصول بڑا سیدھا ہے۔ جو اقوام اپنے دشمن کو پہچاننے میں تاخیر کرتی ہیں وہ صفحہ ہستی پر محض ایک نوٹ بن کر رہ جاتی ہیں۔ وہ فقط دردناک یادیں چھوڑ جاتی ہیں جن پر بعد میں نسلیں نوحہ لکھتی ہیں اور شکست کا ماتم کرتی ہیں۔کیا 56 اسلامی ممالک کی اس دنیا میں کوئی ایسا وجود باقی ہے جس کے کانوں میں غزہ کی عورتوں اور بچوں کی چیخیں گونجتی ہوں؟ کیا اسلامی دنیا کے وہ اتحاد، وہ فوجیں، وہ ادارے جن پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ان کے ضمیر کو ایک بار بھی ملامت ہوئی کہ شاید ان کی طاقت کو ظالم کی بجائے مظلوم کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا؟
نہیں صاحب ! یہ سب کچھ کہنے کی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی، یہ زندہ جسموں میں بسنے والے مردہ گھوڑے ہیں۔ حرکت میں نہیں آتے، جھٹکا نہیں دیتے، ضمیر نہیں جاگتا، آنکھ نم نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی جنبش نہیں، کوئی زلزلہ نہیں، کوئی صدا نہیں۔ ان کا وجود ایک تماشہ ہے اور اس تماشے کے سامنے امت کا لہو بہہ رہا ہے۔
بارہ دن کی جنگ میں ٹھکائی کے باوجود اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس نے ایران کو شکست دے دی۔ یہ دعویٰ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے مگر اصل مقصد واضح ہے کہ اب توجہ پھر غزہ پر ہے۔ نیتن یاہو کا خطاب، غزہ کے شمالی علاقوں کو خالی کرنے کے احکامات، اور نئی کارروائی کا اعلان یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں جبالیہ کیمپ پر ایک اور حملے کی خبر آئی ہے۔ وہی جبالیہ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی آج وہاں ملبہ ہے، لاشیں ہیں، چیخیں ہیں اور ایک اذیت ناک خاموشی ہے۔
او آئی سی جسے اسلامی دنیا کی اقوامِ متحدہ کہا جاتا ہے اس نے گزشتہ چھ ماہ میں فلسطین کے مسئلے پر کتنے اجلاس کیے؟ کئی!لیکن نتیجہ؟ کاغذی قراردادیں، مذمت کے بیانات اور جذباتی تقریریں۔ کیا کسی ایک اجلاس کے بعد کوئی ایک اسرائیلی بم بند ہوا؟ کیا کسی ایک مغربی دارالحکومت نے اپنا رویہ بدلا؟ نہیں۔او آئی سی کا المیہ یہ ہے کہ یہ تنظیم مسلمانوں کی نہیں حکمرانوں کی نمائندہ ہے۔ یہ وہ حکمران ہیں جن کی اکثریت عالمی ایوانوں کی غلامی میں پناہ تلاش کرتی ہے۔ جن کی سرزمینیں تو اسلامی ہیں لیکن پالیسیاں عالمی اداروں کی منظوری سے بنتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں تسبیحیں ضرور ہوتی ہیں مگر فیصلے واشنگٹن، لندن اور پیرس کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ریاض میں بیٹھا ہوا اسلامی فوجی اتحاد جسے بظاہر امت کی حفاظت کے لیے بنایا گیا اس نے آج تک کس دشمن پر گولی چلائی؟ یمن میں کارروائیاں ہوئیں، وہاں بربادی ہوئی مگر فلسطین، کشمیر، برما، افغانستان؟ کچھ نہیں۔ فوجی اتحاد کی قیادت ایک سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے دفتر کی شان بان اور ٹھاٹھ باٹھ کی تصاویر تو منظرعام پر آئیں مگر فلسطینی بچوں کے لیے کوئی دفاعی منصوبہ، کوئی عملی اقدام، کوئی ہنگامی اجلاس کچھ بھی نہیں۔کیا اسلامی فوجی اتحاد صرف کانفرنسوں میں تصویر کشی کے لیے بنایا گیا ہے؟ کیا یہ اتحاد صرف داخلی سلامتی کے نام پر بیرونی ایجنڈے کی حفاظت کے لیے ہے؟ کیا اس کا اصل ہدف اسرائیل یا اسلام دشمن قوتیں نہیں؟ یقین کریں یہ اتحاد محض ایک خوبصورت فائل ہے۔ ایک ایسا الماری میں رکھا ہوا کاغذ، جس پر اسلامی یکجہتی کا لیبل لگا ہے مگر جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
اسرائیل کے پیچھے امریکہ کھڑا ہے۔ ایران پر حملہ ہو یا غزہ کی تباہی، واشنگٹن کی زبان پر ایک حرف مذمت نہیں۔ بلکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان کہتے ہیں اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔مگر جب فلسطینی اپنا دفاع کرتے ہیں، جب حماس یا اسلامی جہاد مزاحمت کرتے ہیں، تو انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ہے، یہی منافقت ہے، یہی بین الاقوامی سفاکی ہے۔
جب دشمن ایک صف میں ہیں، جب اسرائیل، امریکہ، فرانس، برطانیہ اور بھارت ایک ایجنڈے پر متفق ہیں تو ہم مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ ہم مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں، قومیت کے بتوں کے اسیر ہیں، اور اپنے اپنے مفادات کے خول میں قید ہیں۔متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب یہ سب اسرائیل سے تجارتی معاہدے کر چکے۔ تیل کے سودے ہو رہے ہیں، سفارت خانے کھل رہے ہیں، سیاحتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ اور ادھر غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔اسلامی دنیا کا یہ المیہ ہے کہ جن کے پاس دولت ہے ان کے پاس غیرت نہیں اور جن کے پاس غیرت ہے ان کے پاس طاقت نہیں۔ یہی تضاد ہمیں روز مرتا دیکھتا ہے۔
سوچنے کا وقت گزر چکا۔ اب تو عمل کا وقت ہے۔ جو اسلامی ریاستیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہیں انہیں چاہیے کہ کم از کم یہ آواز بلند کریں۔او آئی سی کو غیر موثر قرار دے کر نئے اتحاد کی بنیاد رکھی جائے۔اسلامی فوجی اتحاد کو عسکری ذمہ داریاں دی جائیں ، صرف تقاریر اور پریڈ نہیں۔فلسطینی مزاحمت کو سفارتی، مالی اور عسکری سپورٹ دی جائے۔اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تمام معاہدے معطل کیے جائیں۔اقوام متحدہ میں ایک متفقہ مسلم بلاک کے طور پر مستقل آواز بلند کی جائے۔یہ سب آسان نہیں۔ مگر اگر امت مسلمہ واقعی زندہ ہے، اگر ہمارے حکمران واقعی ’’خادمینِ حرمین‘‘ اور ’’امینِ اسلام‘‘ ہیں تو اب وقت ہے کہ یہ سب کر کے دکھائیں۔
اگر ہم اب بھی خاموش رہے، اگر ہم نے اب بھی صرف مذمتی قراردادوں اور بے معنی اجلاسوں پر اکتفا کیا تو یاد رکھیے کہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی اور غزہ کے بچوں کی چیخیں ہمارے گناہ کے طومار پر لکھی جائیں گی۔علامہ اقبال نے فلسطینی عربوں کے حوالے سے برسوں پہلے خبردار کیا تھا:۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے