پاکستان کے حق میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کیا معاشی فائدہ پہنچا پائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانیوں کی ذہانت اور ان کے ناقابل یقین حد تک شاندار اشیا تیار کرنے کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔
صدرٹرمپ نے کہاکہ ان کی پاکستان سے بہت عمدہ بات چیت ہوئی ہے، وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت کے معاملے میں تو وہ پُریقین تھے تاہم پاکستان سے بھی تجارت پر بات کی، پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا سے تجارت کرے۔
ٹرمپ کی جانب سے نہ صرف پاکستان کی فوج کو سراہا گیا بلکہ پاکستانیوں کی ذہانت کی بھی تعریف کی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے حق میں بیانات ہمیں کوئی معاشی فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
’پاکستان کو ان بیانات سے کوئی نمایاں فائدہ حاصل نہیں ہوگا‘
ماہر معاشیات عابد سلہری نے وی نیوز کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات سے پاکستان کو معاشی طور پر کوئی نمایاں فائدہ حاصل نہیں ہوگا، البتہ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ منفی اور امتیازی رویہ اختیار نہ کریں۔
انہوں نے کہاکہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر لین دین پر مبنی ہے، جہاں مالی معاملات کو خاص اہمیت حاصل ہے، لہٰذا ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں دیے گئے بیانات اس لیے اطمینان بخش ہیں کہ پاکستان اب ان کی منفی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
عابد سلہری نے کہاکہ دو طرفہ تجارت میں فوری طور پر کسی بڑے اضافے کی توقع نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس کے لیے پاکستان اور امریکہ کے مابین محصولات (ٹیرف) کے حوالے سے کوئی جامع معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
’ٹرمپ کا رویہ بدلنا پاکستان کی خاموش سفارتکاری کا نتیجہ ہے‘
معاشی ماہر راجہ کامران نے کہاکہ ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں اچانک رویہ بدلنا بلاشبہ پاکستان کی محتاط اور خاموش سفارتکاری کا نتیجہ ہے، اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کی براہِ راست کوئی اعلیٰ سطح ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ان کی جانب سے پاکستان کی تعریف ایک اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے سفارتی روابط گہرے اور نتیجہ خیز ہیں، پاکستان نے خاموشی، اعتماد اور دانشمندی کے ساتھ سفارتی چالیں چلی ہیں، جو کہ شطرنج کے کھیل کی مانند ہیں، اس میں الفاظ سے زیادہ باڈی لینگویج اور طریقہ کار اہمیت رکھتے ہیں، اس کے برعکس، بھارت دکھاوے کی سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ سفارتی محاذ پر کامیاب ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی نمود و نمائش سے پاک، پرسکون اور چیخ و پکار سے مبرا ہے، اس میں خاموشی سے ملاقاتیں اور پردے کے پیچھے بات چیت شامل ہے۔ اس وقت خطے میں امریکا کے اہم مفادات وابستہ ہیں اور ان کے حصول کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھیں تو مستحکم افغانستان خطے میں تجارت کے فروغ کے لیے اہم ہے اور پاکستان اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
راجا کامران نے کہاکہ افغان طالبان چاہے بھارت کے کتنے ہی قریب ہوں، اگر وہ امریکا کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے، پاکستان کا اس عمل میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن کے قیام میں سہولت کاری کرتے ہوئے پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ایک نتیجہ خیز تجارتی اور ٹیرف معاہدے کی تجویز پیش کی ہے، جو دونوں ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان امریکا سے بڑی مقدار میں اشیا درآمد کرتا ہے، جس میں سویابین سرفہرست ہے۔ اسی طرح امریکا مزید بھی پاکستان کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں امریکا کی کامیابی کا انحصار افغانستان سے باعزت انخلا پر ہے، جس کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ اقتصادی طور پر یہ صورتحال پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے اور امریکی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ بھارت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن بھارتی مالیاتی سیکٹر میں غیر ملکی بینکوں کے لیے داخلہ انتہائی مشکل ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں کوئی بھی امریکی بینک بھارت میں لائسنس حاصل نہیں کر سکا۔ بھارتی مارکیٹ ایک وسیع اور بڑی لین دین والی منڈی ہے، لیکن امریکی بینک اور مالیاتی نظام اس سے قریباً باہر ہیں، یہاں تک کہ چین میں کئی امریکی بینک کام کررہے ہیں، لیکن بھارت میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں ہے، بھارت نے اپنے بینکنگ نظام کو سختی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
’ٹرمپ پاکستان کی تعریف کرکے بھارت کو دباؤ میں لارہے ہیں‘
انہوں نے کہاکہ بھارت کو کسی معاہدے پر لانے کے لیے ٹرمپ پاکستان کی تعریف کرکے ایک طرح سے بھارت کو دباؤ میں لا رہے ہیں، اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر بھارت خطے میں ان کی بات نہیں سنتا تو وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے اگر وہ دانشمندی سے اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔
راجا کامران نے مزید کہاکہ پاکستان کو ٹرمپ پر مکمل اعتماد نہیں کرنا چاہیے، اور انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھ کر سودے بازی کرنی چاہیے۔ اقتصادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اس کی طویل مدتی ترقی اور خوشحالی کے لیے فائدہ مند ہوں، اور اگر ٹرمپ تجارت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو پاکستان کو بھی موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پاکستان کی پاکستان کو کہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الاسکا سے واپسی پر یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی سے طویل گفتگو
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اگست ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا سے واپسی پر اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی سے طویل گفتگو کی ہے امریکی نشریاتی ادارے ”سی این این“ کے مطابق ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ سربراہی اجلاس مکمل ہونے کے بعد مقامی وقت کے مطابق صبح 2 بجے میری لینڈ کے جوائنٹ بیس اینڈریوز پر لینڈ کیا.(جاری ہے)
وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق صدر نے 6 گھنٹے کی پرواز کا زیادہ تر وقت فون پر گزارا، زیلنسکی سے گفتگو کے بعد ٹرمپ نے نیٹو ارکان سے بھی بات کی پیوٹن کے ساتھ 2 گھنٹے سے زائد وقت کی ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ زیلنسکی اور نیٹو حکام کو فون کال کریں گے، ٹرمپ نے کہا کہ میں لازمی طور پر صدر زیلنسکی کو فون کروں گا اور انہیں آج کی ملاقات کے بارے میں بتاﺅں گا. زیلنسکی کے دفتر نے تصدیق کی کہ انہوں نے ٹرمپ سے بات کی یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے، ٹرمپ کے ساتھ طویل اور بامعنی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد انہوں نے کہا کہ یوکرین امن کے حصول کے لیے اپنی بھرپور کوششوں کے ساتھ کام کرنے کی تیاری کی تصدیق کرتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے روسی رہنما سے ملاقات اور ان کی گفتگو کے اہم نکات سے آگاہ کیا، یہ اہم ہے کہ امریکا کی طاقت صورتِ حال پر اثرانداز ہو انہوں نے کہا کہ پیر کو میں صدر ٹرمپ سے واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کروں گا تاکہ قتل و غارت اور جنگ کو ختم کرنے کے تمام پہلوﺅں پر بات ہو سکے، میں اس دعوت پر شکر گزار ہوں. زیلنسکی نے امریکی صدر کی جانب سے سہ فریقی ملاقات ( پیوٹن، زیلنسکی اور ٹرمپ) کی تجویز کی حمایت بھی کی فرانسیسی حکومت کے مطابق یورپی راہنماﺅں نے الاسکا اجلاس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ایک کال میں شمولیت اختیار کی جو ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی ایلیزے پیلس کے مطابق اس کال میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر فریڈرک مرز، برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر، اطالوی وزیراعظم جورجیا میلونی، فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر اسٹب اور پولینڈ کے صدر کیرول ناوروکی شامل تھے. نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے اور یورپی یونین کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے بھی کال میں شرکت کی کریملن کے اعلیٰ معاون یوری اوشاکوف (جو پیوٹن کے وفد کا حصہ تھے) نے روسی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الاسکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات کے دوران زیلنسکی کو شامل کرنے کا خیال زیرغور نہیں آیا ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے سربراہی اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پیوٹن اور زیلنسکی دونوں چاہتے ہیں کہ وہ مستقبل میں دونوں راہنماﺅں کی ملاقات میں شامل ہوں تاکہ امن کی راہ پر بات چیت ہو سکے ٹرمپ نے ”فاکس نیوز“ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ دونوں مجھے وہاں چاہتے ہیں اور میں وہاں ہوں گا اوشاکوف نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان اگلی ملاقات کب ہوگی.