امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانیوں کی ذہانت اور ان کے ناقابل یقین حد تک شاندار اشیا تیار کرنے کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا ہے۔

صدرٹرمپ نے کہاکہ ان کی پاکستان سے بہت عمدہ بات چیت ہوئی ہے، وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت کے معاملے میں تو وہ پُریقین تھے تاہم پاکستان سے بھی تجارت پر بات کی، پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا سے تجارت کرے۔

ٹرمپ کی جانب سے نہ صرف پاکستان کی فوج کو سراہا گیا بلکہ پاکستانیوں کی ذہانت کی بھی تعریف کی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے حق میں بیانات ہمیں کوئی معاشی فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟

’پاکستان کو ان بیانات سے کوئی نمایاں فائدہ حاصل نہیں ہوگا‘

ماہر معاشیات عابد سلہری نے وی نیوز کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات سے پاکستان کو معاشی طور پر کوئی نمایاں فائدہ حاصل نہیں ہوگا، البتہ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ منفی اور امتیازی رویہ اختیار نہ کریں۔

انہوں نے کہاکہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر لین دین پر مبنی ہے، جہاں مالی معاملات کو خاص اہمیت حاصل ہے، لہٰذا ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں دیے گئے بیانات اس لیے اطمینان بخش ہیں کہ پاکستان اب ان کی منفی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

عابد سلہری نے کہاکہ دو طرفہ تجارت میں فوری طور پر کسی بڑے اضافے کی توقع نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس کے لیے پاکستان اور امریکہ کے مابین محصولات (ٹیرف) کے حوالے سے کوئی جامع معاہدہ ہونا ضروری ہے۔

’ٹرمپ کا رویہ بدلنا پاکستان کی خاموش سفارتکاری کا نتیجہ ہے‘

معاشی ماہر راجہ کامران نے کہاکہ ٹرمپ کا پاکستان کے بارے میں اچانک رویہ بدلنا بلاشبہ پاکستان کی محتاط اور خاموش سفارتکاری کا نتیجہ ہے، اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کی براہِ راست کوئی اعلیٰ سطح ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ان کی جانب سے پاکستان کی تعریف ایک اہم پیش رفت ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کے سفارتی روابط گہرے اور نتیجہ خیز ہیں، پاکستان نے خاموشی، اعتماد اور دانشمندی کے ساتھ سفارتی چالیں چلی ہیں، جو کہ شطرنج کے کھیل کی مانند ہیں، اس میں الفاظ سے زیادہ باڈی لینگویج اور طریقہ کار اہمیت رکھتے ہیں، اس کے برعکس، بھارت دکھاوے کی سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ سفارتی محاذ پر کامیاب ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی نمود و نمائش سے پاک، پرسکون اور چیخ و پکار سے مبرا ہے، اس میں خاموشی سے ملاقاتیں اور پردے کے پیچھے بات چیت شامل ہے۔ اس وقت خطے میں امریکا کے اہم مفادات وابستہ ہیں اور ان کے حصول کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھیں تو مستحکم افغانستان خطے میں تجارت کے فروغ کے لیے اہم ہے اور پاکستان اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

راجا کامران نے کہاکہ افغان طالبان چاہے بھارت کے کتنے ہی قریب ہوں، اگر وہ امریکا کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے، پاکستان کا اس عمل میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن کے قیام میں سہولت کاری کرتے ہوئے پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے ایک نتیجہ خیز تجارتی اور ٹیرف معاہدے کی تجویز پیش کی ہے، جو دونوں ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان امریکا سے بڑی مقدار میں اشیا درآمد کرتا ہے، جس میں سویابین سرفہرست ہے۔ اسی طرح امریکا مزید بھی پاکستان کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں امریکا کی کامیابی کا انحصار افغانستان سے باعزت انخلا پر ہے، جس کے لیے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ اقتصادی طور پر یہ صورتحال پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے اور امریکی منڈی تک رسائی حاصل کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ بھارت کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن بھارتی مالیاتی سیکٹر میں غیر ملکی بینکوں کے لیے داخلہ انتہائی مشکل ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں کوئی بھی امریکی بینک بھارت میں لائسنس حاصل نہیں کر سکا۔ بھارتی مارکیٹ ایک وسیع اور بڑی لین دین والی منڈی ہے، لیکن امریکی بینک اور مالیاتی نظام اس سے قریباً باہر ہیں، یہاں تک کہ چین میں کئی امریکی بینک کام کررہے ہیں، لیکن بھارت میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں ہے، بھارت نے اپنے بینکنگ نظام کو سختی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔

’ٹرمپ پاکستان کی تعریف کرکے بھارت کو دباؤ میں لارہے ہیں‘

انہوں نے کہاکہ بھارت کو کسی معاہدے پر لانے کے لیے ٹرمپ پاکستان کی تعریف کرکے ایک طرح سے بھارت کو دباؤ میں لا رہے ہیں، اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر بھارت خطے میں ان کی بات نہیں سنتا تو وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے اگر وہ دانشمندی سے اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔

راجا کامران نے مزید کہاکہ پاکستان کو ٹرمپ پر مکمل اعتماد نہیں کرنا چاہیے، اور انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھ کر سودے بازی کرنی چاہیے۔ اقتصادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اس کی طویل مدتی ترقی اور خوشحالی کے لیے فائدہ مند ہوں، اور اگر ٹرمپ تجارت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو پاکستان کو بھی موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پاکستان کی پاکستان کو کہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ایکسچینج کمپنیوں کو پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو میں شمولیت سے ملک کو فائدہ ہوگا ، ملک محمد بوستان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامرس رپورٹر)چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسو سی ایشن آف پاکستان ملک محمد بوستان نے ایکسچینج کمپنیوں کو پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو (پی آر آئی) میں شامل کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے ملک کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا اورانہوں نے جو ہم پر اعتماد کیا ہے ہم اس پر پورا اتریں گے، حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیوں کو پی آر آئی میں شامل کیا ہے تو اس سال اگر ایکسچینج کمپنیوں نے 4ارب دیئے تو اگلے سال ایکسچینج کمپنیاں8 سے 10 ارب ڈالر حکومت پاکستان کے انٹربینک کے ذریعے فراہم کرینگی کیونکہ ہمیں ابھی لیو ل پلیئنگ فیلڈ کا پورا موقع ملا ہے اور ہم اس لیول پلیئنگ فیلڈ میں چوکے چھکے لگا کر دکھائیں گے اور ہرماہ رنز پر رنز بنائیں گے ۔ملک محمدبوستان نے محرم الحرام کے مبارک اسلامی مہینے میں ایکسچینج کمپنیوں کو جن کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ ہمیں پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو میں شامل کیا جائے اور ا سٹیٹ بینک نے اس حوالے سے سرکولر نمبر4 آف 2025، مورخہ 30 جون 2025 جاری کر دیا ہے جس پر میں گورنرا سٹیٹ بینک ڈاکٹر جمیل احمد ، وزیر اعظم میاں شہباز شریف، وزیرخزانہ اورنگزیب اور فیلڈ مارشل عاصم مُنیر کا اپنی طرف سے اور اپنے تمام ممبران کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی کوششوں سے آج ایکسچینج کمپنیوں کو پی آر آئی میں شامل کیا گیا ہے جس سے ملک کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا اورانہوں نے جو ہم پر اعتماد کیا ہے ہم اس پر پورا اتریں گے ۔انہوں نے بتایا کہ ایکسچینج کمپنیوں نے پچھلے سال تقریباً4 ارب ڈالر انٹر بینک میں سرینڈر کیئے ہیں اور ہماری ٹوٹل1500لوکیشنز تھیں اور فی لوکیشن ہم نے سالانہ تقریباََ 2.5 ملین ڈالر انٹر بینک میں سرینڈر کیئے ہیں،جس میں ا ن ورڈ بھی تھی اور فارن کرنسی ایکسپورٹ بھی تھی اور بینکوں نے جن کی تقریباً 15000 لوکیشنز ہیں اور انہوں نے تقریباً 33 ارب ڈالر پچھلے سال اورموجودہ شامل کرکے ایک ملین فی لوکیشن کے حساب سے تقریباً 33ارب ڈالر بنتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • بم ایران میں گرا تو مقدمہ پاکستان میں کیوں، ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمے کی درخواست مسترد
  • کراچی: عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمے کے اندراج کی درخواست مسترد کر دی
  • کراچی کی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمے کے اندراج کی درخواست مسترد کر دی
  • ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف درخواست، عدالت نے کیا حکم دیا؟
  • ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ بے بنیاد ہے، جنگ بندی میں ان کا کوئی دخل نہیں، جے شنکر
  • بھارت کے ساتھ تجارتی ڈیل ہونے کا امکان ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایکسچینج کمپنیوں کو پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو میں شمولیت سے ملک کو فائدہ ہوگا ، ملک محمد بوستان
  • بھارت کو عالمی عدالت میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا، سندھ طاس معاہدے سے نکل نہیں سکتا، وزیراعظم شہباز شریف
  • صدر ٹرمپ نے نیویارک کے ممکنہ میئر زہران ممدانی کو دھمکی کیوں دی؟