جماعت اسلامی کا بدامنی کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے کہا کہ مقامی بااثر ظالم وڈیروں، ڈاکوؤں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑیوں کے کٹھ جوڑنے سندھ میں اغوا برائے تاوان کو ایک منافع بخش کاروبار بنادیا ہے، پانی پر ڈاکہ، زمینوں اور وسائل پر قبضے کی سازش سے لے کر ڈاکو راج تک صوبہ سندھ چاروں طرف مافیاز کے گھیرے میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی سندھ کا صوبہ میں بڑھتی ہوئی بدامنی و ڈاکو راج کے خلاف جمعہ 23 مئی کو کراچی تا کشمور سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان، عوام سے بھرپور شرکت کی اپیل، پانی پر ڈاکہ اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا فیصلہ، امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ نے لوئر سندھ کے ضلعی امراء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ گذشتہ سترہ سال سے تسلسل کے ساتھ برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی تاکشمور قیام امن میں ناکاک ثابت ہوئی ہے، اس وقت پورا صوبہ بدامنی کی لپیٹ میں ہے، خاص طور پر کشمور، گھوٹکی، شکارپور اور جیکب آباد میں بدترین بدامنی نے عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے، مقامی بااثر ظالم وڈیروں، ڈاکوؤں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑیوں کے کٹھ جوڑنے سندھ میں اغوا برائے تاوان کو ایک منافع بخش کاروبار بنادیا ہے، پانی پر ڈاکہ، زمینوں اور وسائل پر قبضے کی سازش سے لے کر ڈاکو راج تک صوبہ سندھ چاروں طرف مافیاز کے گھیرے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدامنی کی وجہ سے تعلیم سے لے کر کاروبار، معیشت اور تہذیب و ثقافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اس وقت بھی درجنوں لوگ ڈاکوؤں کے چنگل میں ہیں خاص طور پر ہندو اقلیتی برادری کو پریشان کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں ہندو خاندان اپنا کاروبار اور گھر چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اس سے پہلے اس سنگین و اہم مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس، دھرنے بھی دیئے ہیں، عوامی احتجاج اور حکام بالا کو بارہا توجہ دلانے کے باوجود ان کے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی جوکہ بے حسی کی انتہا ہے، امن دینے کی بجائے امن کی بھیک مانگنے کے لیے پرامن احتجاج کرنے والوں پر دہشتگردی کے مقدمات حکمرانوں کا شرمناک عمل اور بدترین فسطائیت ہے۔ صوبائی امیر نے زور دیا کہ عوام جمعہ کو بدامنی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھرپور شرکت کرکے بیداری کا ثبوت دیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے خلاف
پڑھیں:
پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-08-20
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلدیاتی نظام سے متعلق ترمیم پر پیپلز پارٹی کو سخت وارننگ دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کے معاملے پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے اس بل پر بات نہ کی تو ’’18 ویں ترمیم بھی ختم ہوگی اور سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘‘۔ مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ آنے والے مہینوں میں یہ ترمیم لازمی آئے گی اور منظور بھی ہوگی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اسے چارہ نہیں دو گے تو کیسے چلے گا‘‘ اور یہ بھی واضح کیا کہ پی پی پی 27ویں ترمیم میں اس بل کو شامل کرنے کیلیے تیار نہیں تھی تاہم حکومت نے آئندہ ترمیم میں اسے لازمی دیکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر نے آج بغیر تیاری کے پریس کانفرنس کرکے پیپلز پارٹی پر بے بنیاد الزام تراشی کی، سندھ کی تقسیم ناممکن ہے، دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو سندھ کو تقسیم کرے۔ تفصیلات کے مطابق بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی مجوزہ آئینی ترمیم اب صرف کراچی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2024 میں پہلی بار پاکستان کی تاریخ میں ایم کیو ایم نے وزارتیں، عہدے اور پیکیجز مانگنے کے بجائے صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ہم نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو ایگریمنٹ کیا وہ صرف اور صرف ہماری آئینی ترمیم کی حمایت کیلیے تھا۔ لیکن جب ایم کیو ایم نے 26ویں ترمیم کے موقع پر اپنا بل پیش کیا تو ہمارے پاس نمبرز کم تھے، اور ملک کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے اس بل کو اس وقت موخر کر دیا گیا۔ ہمارا بل لاء اینڈ جسٹس کی قائمہ کمیٹی میں رہا، ایک سال بعد جب 27 ویں ترمیم کا موقع آیا تو پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان کی تمام پارٹیز نے ایم کیو ایم کے بل کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے ایک ڈیڈلاک پیدا ہوا اور قومی مفاد میں وزیراعظم نے ہم سے گزارش کی کہ اس معاملے کو اگلی ترمیم کیلیے روک دیا جائے۔ یہ بل مردہ نہیں ہوا، یہ زندہ ہے۔ جیسے 26ویں ترمیم کے بعد یہ زندہ رہا، ویسے ہی 27ویں ترمیم کے بعد بھی زندہ ہے۔ عوام کے حقوق کا یہ آئینی بل آنے والے مہینوں میں اسمبلی میں آئے گا اور عوام کے گھروں تک اختیارات اور وسائل پہنچیں گے۔ مصطفی کمال نے کراچی کے معاشی استحصال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی کو 2006ء تک جی ایس ٹی کا 2.5% براہ راست ملتا تھا بعد میں جی ڈی پی کا 1/6 براہ راست ڈسٹرکٹ کو جاتا تھا لیکن 2010 کی 7ویں این ایف سی ترمیم کے بعد سب پیسہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارک ہونے لگا، کراچی کو اس سال 850 ارب روپے ملنے چاہیے تھے جبکہ حقیقت میں 100 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ پچھلے 17 سالوں میں کراچی کو 3000 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ مصطفی کمال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے تاریخی فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ آرٹیکل 140 اے صرف ایک روایتی شق نہیں، بلکہ آئین کی اس روح کی علامت ہے جو عوام کو بااختیار بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ بلدیاتی حکومتیں آئینی ادارے ہیں اور صوبے ان کے اختیارات ختم نہیں کر سکتے۔ جسٹس گلزار احمد کے فیصلے نے یہ مؤقف مضبوط کیا کہ اختیارات کی مرکزیت قومی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور پاکستان میں دیرپا ترقی اسی وقت ممکن ہے جب شہر اپنے فیصلے خود کر سکیں۔