ماحولیاتی تبدیلی؛ حقیقت بھی، سرمایہ دار کا ایک نیا ہتھیار بھی
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحولیاتی حرارت گیری کی سب سے بڑی وجہ ہے اور گرین ہاؤس گیسوں میں سے سب سے زیادہ منفی اثرات رکھنے والی گیس ہے۔ اس کی مقدار اس وقت پچھلے آٹھ لاکھ سال میں خطرناک حد تک بڑھ کر چار سو دس حصے فی ملین ہوچکی ہے۔
عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے دور کی نسبت ایک اعشاریہ دو ڈگری بڑھ چکا ہے۔ یہ خطرناک ماحولیاتی تبدیلی سے صرف اعشاریہ آٹھ ڈگری کم ہے۔ کیونکہ سارے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی درجہ حرارت میں دو ڈگری کی تبدیلی آئے گی تو دنیا کے جغرافیائی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ آنے والے صرف بیس سال میں درجہ حرارت اس خطرناک نقطے کو چھو جائے گا۔ ابھی تک انسان نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور ڈر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرے گا بھی نہیں!
اس تبدیلی کے اثرات بہت ہی بھیانک ہوں گے۔ جب انسان اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کرے گا تو اس کے ناخوشگوار اور پریشان کن اثرات سامنے آئیں گے۔ جب درجہ حرارت بڑھے گا تو آب و ہوا کی تبدیلی غیر یقینی ہوجائے گی۔ سیلاب اور طوفان جو ایک سو سال میں ایک دفعہ آتے تھے وہ ہر دس بیس سال بعد آنے شروع ہوجائیں گے۔ دنیا کے ہر خطے کا موسم شدت اختیار کرجائے گا اور ساری صورت حال بگڑ جائے گی۔ جہاں سبزہ زار ہیں وہ ریگستان بن جائیں گے اور سر سبز پہاڑ چٹیل ہو جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں بارش کا آنا اور بارش والے علاقوں میں نہ آنا۔
موسموں کی اس تبدیلی سے جغرافیائی اور سیاسی تعلقات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ کچھ ملک ڈوب جائیں گے اور کچھ ریگستان میں تبدیل ہو جائیں گے، جہاں کے رہنے والے سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے اور بہت سارے تلخی ایام سہہ ہی نہ پائیں گے۔ ایسی صورت حال میں تاریخی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ امریکا اور چین اس تعاون میں نمایاں ہوں گے۔ اگر ان دونوں ملکوں نے آپس میں تعاون نہ کیا تو ایک قیامت پربا ہوجانے کا ڈر ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حکومتیں، پرائیویٹ کمپنیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا کردار نبھائیں گی تو ہی حالات پر قابو پایا جاسکے گا۔
لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس منڈلاتے خطرے کو ترقی یافتہ ممالک ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرنے لگ جائیں، کیونکہ ترقی یافتہ دنیا بھی بڑی چالاک اور طاقتور ہے۔ اس کے بیک جنبش قلم سے ہی نہیں بیک جنبش ابرو سے بھی فیصلے اور حالات بدل جاتے ہیں اور اس طاقت کو مستقل طور پر برقرار رکھنے اور استعمال کرنے کےلیے سرمایہ کار کی دنیا عالمی مسائل کو استحصال کرنے کےلیے استعمال کرتی ہے۔ اس نے پہلے ہی بہت سے ایسے ہتھیار بنا رکھے ہیں جو ہیں تو نادیدہ مگر ایٹم بم سے زیادہ خطرناک اور زہریلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ انسان کے دماغ پر اس کی سوچ اور احساسات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہتھیاروں میں ایک تازہ ترین ہتھیار ماحولیاتی تبدیلی کا بھی بنا لیا جائے گا۔ خاص طور مسلم ممالک کےلیے یہ ایک بڑا بلیک میلنگ پوائنٹ بن کر سامنے آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گرد، شدت پسند، غار کے دور کے لوگ، فرسودہ خیالات کے لوگ، عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی انتہا پسندی وغیرہ جیسے ہتھیار ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک پر حملہ تک کرنے کا جواز انہی باتوں کو بنایا گیا۔
کسی انتہائی اہم معاملے سے صرف نظر کرنے یا کروانے کےلیے اس ماحولیاتی تبدیلی کے نام کو استعمال کیا جائے گا۔ ایسے ہی جیسے عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ حملوں کی زد میں ہے اور غزہ کو بڑے منظم طریقے سے ختم کیا جاچکا ہے۔ کچھ دن پہلے غزہ عالمی اخبارات و میڈیا کی شہ سرخیوں میں آ گیا تھا مگر اسے اسی ترقی یافتہ دنیا نے پس پشت ڈال دیا اور دنیا کی توجہ دوسرے بہت سے گھمبیر مسائل کی طرف مبذول کرا دی۔ ایسا اس دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ جب بھی مسلم دنیا پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تب ہی اس سے توجہ ہٹانے کےلیے امریکا ایران جنگ کا شوشا چھوڑ کر اس معاملے کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ غزہ سے توجہ ہٹانے کےلیے اس دفعہ بھی ایران اور امریکا ہی کام آئے۔ کبھی ایٹمی معاہدے کا ذکر اور کبھی امریکا پر ایران کا حملہ اور کبھی ایران پر اسرائیل کا حملہ۔ ایسے ہی حربوں میں سے ایک یہ حربہ ماحولیات کا مسئلہ اور عالمی فضا میں تبدیلی کا معاملہ بھی بنے گا۔ عالمی میڈیا جو سرمایہ دار کے قبضے میں ہے ایک دم کہے گا کہ فلاں ملک کی وجہ سے دنیا کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے، اس پر پابندی یا حملہ یا کوئی بھی قدغن لگائی جاسکے گی۔
اگرچہ اس وقت دنیا ایک مستقل بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عالمی لبرل ازم ہر طرف سے گھیرے میں ہے۔ جمہوریت زوال پذیر ہے۔ معاشی بحالی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ابھرتا ہوا چین امریکا کےلیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ اور بین الاقوامی تناؤ ایک تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ ان تمام بحرانوں سے بڑھ کر ہے اور ہم اس سے یا تو بے بہرہ ہیں یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی تمام نسل انسانی کےلیے خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی آنے والے وقت میں عالمی معاشیات اور تعلقات پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوگی۔ اس لیے تمام ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک خود کو چوکنا رکھیں کہ مغرب اب اسے ماحولیات کے نام پر استعمال کرے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی جائیں گے ایسے ہی جائے گا ہوں گے
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پنجاب کا جدید سائنسی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جدید کلائمیٹ آبزرویٹری بنانے کی منظوری دے دی ہے، جدید سائنسی مرکز قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔منصوبے کیلئے بجٹ، آلات اور زمین کی فراہمی اور فزیبلٹی پلان تیار کر لیا گیا ہے، سینئر وزیرپنجاب مریم اورنگزیب کی زیرصدارت اجلاس میں یو ای ٹی لاہور نے کلائمیٹ آبزرویٹری کے قیام سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انٹرن شپ پروگرام کے ذریعے ہر شعبے کیلئے ماحولیاتی ماہرین تیار کیے جائیں گے، آبزرویٹری میں جدید خود کار کمیونی کیشن سسٹم نصب کیا جائے گا، اس سے سائنسی تحقیق کے فروغ اور بین الاقوامی سطح پر ماحولیاتی معلومات کے تبادلے میں مدد ملے گی۔اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ عالمی معیار کا پروفیشنل اسٹاف منتخب کیا جائے گا، جدید کلائمیٹ آبزرویٹری کے قیام کیلئے زمین کا قبضہ مل گیا ہے، جدید کلائمیٹ آبزرویٹری کی عمارت ای آئی سی ٹی میں تعمیر کی جائے گی۔سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ ادارے کو جدید ترین مینجمنٹ ماڈل کے تحت چلایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کا پلان دیا ہے، آبزرویٹری کا قیام ماحولیاتی تحفظ سے متعلق بڑا قدم ہے۔