کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحولیاتی حرارت گیری کی سب سے بڑی وجہ ہے اور گرین ہاؤس گیسوں میں سے سب سے زیادہ منفی اثرات رکھنے والی گیس ہے۔ اس کی مقدار اس وقت پچھلے آٹھ لاکھ سال میں خطرناک حد تک بڑھ کر چار سو دس حصے فی ملین ہوچکی ہے۔

عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے دور کی نسبت ایک اعشاریہ دو ڈگری بڑھ چکا ہے۔ یہ خطرناک ماحولیاتی تبدیلی سے صرف اعشاریہ آٹھ ڈگری کم ہے۔ کیونکہ سارے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ ماحولیاتی درجہ حرارت میں دو ڈگری کی تبدیلی آئے گی تو دنیا کے جغرافیائی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ آنے والے صرف بیس سال میں درجہ حرارت اس خطرناک نقطے کو چھو جائے گا۔ ابھی تک انسان نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور ڈر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرے گا بھی نہیں!

اس تبدیلی کے اثرات بہت ہی بھیانک ہوں گے۔ جب انسان اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول نہیں کرے گا تو اس کے ناخوشگوار اور پریشان کن اثرات سامنے آئیں گے۔ جب درجہ حرارت بڑھے گا تو آب و ہوا کی تبدیلی غیر یقینی ہوجائے گی۔ سیلاب اور طوفان جو ایک سو سال میں ایک دفعہ آتے تھے وہ ہر دس بیس سال بعد آنے شروع ہوجائیں گے۔ دنیا کے ہر خطے کا موسم شدت اختیار کرجائے گا اور ساری صورت حال بگڑ جائے گی۔ جہاں سبزہ زار ہیں وہ ریگستان بن جائیں گے اور سر سبز پہاڑ چٹیل ہو جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں بارش کا آنا اور بارش والے علاقوں میں نہ آنا۔

موسموں کی اس تبدیلی سے جغرافیائی اور سیاسی تعلقات پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ کچھ ملک ڈوب جائیں گے اور کچھ ریگستان میں تبدیل ہو جائیں گے، جہاں کے رہنے والے سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے اور بہت سارے تلخی ایام سہہ ہی نہ پائیں گے۔ ایسی صورت حال میں تاریخی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ امریکا اور چین اس تعاون میں نمایاں ہوں گے۔ اگر ان دونوں ملکوں نے آپس میں تعاون نہ کیا تو ایک قیامت پربا ہوجانے کا ڈر ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حکومتیں، پرائیویٹ کمپنیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا کردار نبھائیں گی تو ہی حالات پر قابو پایا جاسکے گا۔

لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس منڈلاتے خطرے کو ترقی یافتہ ممالک ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرنے لگ جائیں، کیونکہ ترقی یافتہ دنیا بھی بڑی چالاک اور طاقتور ہے۔ اس کے بیک جنبش قلم سے ہی نہیں بیک جنبش ابرو سے بھی فیصلے اور حالات بدل جاتے ہیں اور اس طاقت کو مستقل طور پر برقرار رکھنے اور استعمال کرنے کےلیے سرمایہ کار کی دنیا عالمی مسائل کو استحصال کرنے کےلیے استعمال کرتی ہے۔ اس نے پہلے ہی بہت سے ایسے ہتھیار بنا رکھے ہیں جو ہیں تو نادیدہ مگر ایٹم بم سے زیادہ خطرناک اور زہریلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ انسان کے دماغ پر اس کی سوچ اور احساسات کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ہتھیاروں میں ایک تازہ ترین ہتھیار ماحولیاتی تبدیلی کا بھی بنا لیا جائے گا۔ خاص طور مسلم ممالک کےلیے یہ ایک بڑا بلیک میلنگ پوائنٹ بن کر سامنے آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گرد، شدت پسند، غار کے دور کے لوگ، فرسودہ خیالات کے لوگ، عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، مذہبی انتہا پسندی وغیرہ جیسے ہتھیار ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک پر حملہ تک کرنے کا جواز انہی باتوں کو بنایا گیا۔

کسی انتہائی اہم معاملے سے صرف نظر کرنے یا کروانے کےلیے اس ماحولیاتی تبدیلی کے نام کو استعمال کیا جائے گا۔ ایسے ہی جیسے عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ حملوں کی زد میں ہے اور غزہ کو بڑے منظم طریقے سے ختم کیا جاچکا ہے۔ کچھ دن پہلے غزہ عالمی اخبارات و میڈیا کی شہ سرخیوں میں آ گیا تھا مگر اسے اسی ترقی یافتہ دنیا نے پس پشت ڈال دیا اور دنیا کی توجہ دوسرے بہت سے گھمبیر مسائل کی طرف مبذول کرا دی۔ ایسا اس دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ جب بھی مسلم دنیا پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تب ہی اس سے توجہ ہٹانے کےلیے امریکا ایران جنگ کا شوشا چھوڑ کر اس معاملے کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ غزہ سے توجہ ہٹانے کےلیے اس دفعہ بھی ایران اور امریکا ہی کام آئے۔ کبھی ایٹمی معاہدے کا ذکر اور کبھی امریکا پر ایران کا حملہ اور کبھی ایران پر اسرائیل کا حملہ۔ ایسے ہی حربوں میں سے ایک یہ حربہ ماحولیات کا مسئلہ اور عالمی فضا میں تبدیلی کا معاملہ بھی بنے گا۔ عالمی میڈیا جو سرمایہ دار کے قبضے میں ہے ایک دم کہے گا کہ فلاں ملک کی وجہ سے دنیا کا ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے، اس پر پابندی یا حملہ یا کوئی بھی قدغن لگائی جاسکے گی۔

اگرچہ اس وقت دنیا ایک مستقل بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ عالمی لبرل ازم ہر طرف سے گھیرے میں ہے۔ جمہوریت زوال پذیر ہے۔ معاشی بحالی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ ابھرتا ہوا چین امریکا کےلیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ اور بین الاقوامی تناؤ ایک تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ ان تمام بحرانوں سے بڑھ کر ہے اور ہم اس سے یا تو بے بہرہ ہیں یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کہیں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

ماحولیاتی تبدیلی تمام نسل انسانی کےلیے خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی آنے والے وقت میں عالمی معاشیات اور تعلقات پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوگی۔ اس لیے تمام ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک خود کو چوکنا رکھیں کہ مغرب اب اسے ماحولیات کے نام پر استعمال کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی جائیں گے ایسے ہی جائے گا ہوں گے

پڑھیں:

پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور ہوگیا، پورٹ قاسم کو بین الاقوامی ادارے کی تازہ رپورٹ میں دنیا کی نویں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی کنٹینر بندرگاہ قرار دیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق کنٹینر پورٹ پرفارمنس انڈیکس (CPPI) 2024 میں 400 سے زائد عالمی بندرگاہوں کا تجزیہ کیا گیا، جس میں پورٹ قاسم نے محض چار برسوں میں 35.2 پوائنٹس کی شاندار بہتری کے ساتھ دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کیا، یہ کامیابی پاکستان کی بڑھتی ہوئی تجارتی صلاحیت اور بندرگاہی شعبے میں عملی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔

وفاقی وزیر برائے میری ٹائم افیئرز جنید انور چوہدری نے اس پیش رفت کو قومی فخر کا لمحہ  قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پالیسی اصلاحات، مؤثر قوانین اور ڈیجیٹلائزیشن نے اس کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا،کارگو آٹومیشن، ریئل ٹائم ٹریکنگ اور جدید سہولیات نے پاکستان کی بندرگاہی صنعت کو عالمی معیار پر لا کھڑا کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے طویل عرصے سے رکے ہوئے ڈریجنگ منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد بڑے جہازوں کی آمد و رفت ممکن ہوگی اور تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے برتھس اور اسٹوریج سہولیات سے برآمدی استعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔

چیئرمین پورٹ قاسم ریئر ایڈمرل (ر) معظم الیاس نے اس کامیابی کو افرادی قوت کی محنت، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور اختراعی اقدامات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیش رفت پاکستان کو خطے کے ایک ابھرتے ہوئے لاجسٹکس حب کے طور پر اجاگر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی، گوادر اور پورٹ قاسم مل کر ایک جدید سمندری مثلث تشکیل دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف تجارتی لاگت کم ہوگی بلکہ پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش مارکیٹ بن جائے گا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکا سائنس میں عالمی برتری کھو سکتا ہے
  •  امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، محمد ایوب مغل 
  • پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار
  • پورٹ قاسم دنیا کی نویں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی بندرگاہ قرار
  • سونے کی عالمی و مقامی مارکیٹوں میں قیمتیں مستحکم، فی تولہ اب بھی مہنگا ترین
  • ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں، وزیر خزانہ
  • دبئی کے کیفے میں دنیا کا مہنگا ترین کافی کپ فروخت، نیا عالمی ریکارڈ قائم
  • پرندوں کا انوکھا ملاپ: ماحولیاتی تبدیلی سے مخلوط نسل بچے پیدا ہونے لگے؟
  • دنیا حیران، ایلون مسک نے امیری کا نیا عالمی ریکارڈ بنا دیا
  • سلمان خان کےلیے برنس روڈ سے بریانی اور حلیم لے کر جاتا تھا؛ کاشف خان کا انکشاف