پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر تنازع ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے: برطانوی پارلیمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
لندن: برطانوی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی نے جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ تنازع کشمیر ایک ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے، اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان فوری طور پر بامقصد مذاکرات شروع نہ کیے گئے۔
رپورٹ میں بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کرنے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، اور علاقے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں سفارشات کی گئی ہیں کہ برطانیہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں پر سفارتی دباؤ ڈالے۔ خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال کی مسلسل نگرانی کی جائے۔ دونوں فریقین کو بین الاقوامی مبصرین کی رسائی کی اجازت دینے پر آمادہ کیا جائے۔ برطانوی حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے مہاجرین کی آواز سنے اور ان کے تحفظات کا احترام کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک مشتبہ واقعے کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز بنایا، جسے خطرناک اور غیر ذمے دار اقدام قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت جمہوری آزادیوں پر قدغنیں لگا رہا ہے، صحافت کو دبایا جا رہا ہے، اور سیاسی آزادیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔
کمیٹی کے مطابق حالیہ برسوں میں پاکستان نے خطے میں کشیدگی کے باوجود ذمہ داری، صبر، اور بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکمت عملی اپنائی ہے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ برطانیہ کو اپنے تاریخی تعلقات اور سفارتی اثر و رسوخ کو استعمال کر کے خطے میں امن و استحکام کی راہ ہموار کرنی چاہیے جبکہ ساتھ ہی برطانوی حکومت کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی اقدار پر مبنی متوازن پالیسی اختیار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ برطانوی حکومت آئندہ چند ماہ میں اس رپورٹ پر باضابطہ جواب دے گی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک انڈیا جنگ کے دوران طالبان کے اہم وزیر نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا تھا، برطانوی میڈیا
بی بی سی کے مطابق اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ پاک بھارت کشیدگی کے عروج کے دنوں میں کیا گیا اور ابراہیم صدر کو طالبان کے امیر ملا ہبتہ اللہ کے نہایت قریب بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی پشتو‘‘ نے دعویٰ کیا کہ نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر بھارت کے خفیہ دور پر گئے تھے۔ بی بی سی کے مطابق اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ پاک بھارت کشیدگی کے عروج کے دنوں میں کیا گیا اور ابراہیم صدر کو طالبان کے امیر ملا ہبتہ اللہ کے نہایت قریب بھی سمجھا جاتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ابراہیم صدر کو طالبان حکومت کے اہم اور اسٹریٹیجک سیکیورٹی کے امور میں مہارت کے باعث فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے۔ بھارتی اخبار ’سنڈے گارڈیئن‘ نے طالبان حکومت کے ایک اہم عہدیدار کے بھارت دورے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس دورے کی ٹائمنگ اہم ہے تاہم طالبان حکومت اور بھارت کی جانب سے اس خفیہ دورے کی تاحال تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گذشتہ روز طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ بی بی سی نے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ابراہیم صدر ایک سخت گیر فوجی کمانڈر ہیں جن کی پیدائش 1960 میں ہوئی تھی۔ ابراہیم صدر سنہ 90 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں نائب وزیرِ دفاع تھے اور سابق امیرِ طالبان ملا اختر منصور کے بھی نہایت قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے مئی 2021 میں جنوبی ہلمند صوبے میں طالبان کی جانب سے لڑائی کی قیادت کی اور اقتدار سنبھال لیا تھا۔ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ابراہیم صدر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ان طالبان فوجی رہنماؤں میں سے ہیں جن کے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس سے قریبی روابط ہیں۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اکتوبر 2018 میں امریکی محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی ایسٹ کنٹرول (او ایف اے سی) نے ابراہیم صدر کو خودکش حملوں اور دیگر خطرناک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک فہرست میں ڈال دیا تھا۔