Express News:
2025-07-04@22:13:30 GMT

نریندر مودی کوسمجھ نہیں آ رہی جواب کس طرح دینا ہے

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے ساتھ جو پاکستان نے کی ہے وہ زخموں سے چور چور ہے، اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ جواب کس طرح سے دینا ہے، جب انھوں نے اتنا بڑا وفد بنایا دنیا میں جانے کے لیے دنیا کو بتانے کے لیے تو ششی تھرور ان کے ہیڈ تھے، یہ کسی دور میں بہت بڑا دانشور سمجھتا تھا اس شخص کو لیکن جنگ کے دوران جس طرح کے ٹویٹس آئے تو اس کی سارے قلعی کھل گئی۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں سمجھتا ہوں کہ بلاول کو بنانا ہیڈ اس کا بہت اچھا فیصلہ ہے۔ 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ یہ جو شکست ہوتی ہے نہ یہ یتیم ہوتی ہے، کہتے ہیں نہ کہ شکست یتیم ہوتی ہے اور فتح کے بہت باپ ہوتے ہیں، انڈیا کے ساتھ بالکل یہی معاملہ ہو رہا ہے، انڈیا اس وقت دنیا میں جو ہے تنہا ہوتا جا رہا ہے، انڈیا اس جنگ سے پہلے یا ان جنگی حالات سے پہلے جو جو ملک انڈیا کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے وہ انڈیا کے حالات کی وجہ سے شرمندہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ 

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ سب سے پہلے یہ کہ بھارت پاکستان کے خلاف سفارتی جنگ ابھی سے نہیں جب سے مودی آئیں ہیں انہوں نے یہ جنگ شروع کر رکھی ہے، 2016 کی ایک تقریر میں مودی نے کہا تھا کہ میں پاکستان کو دنیا میں تنہا کروں گا خصوصاً جو ان کا منترا ہے اسی کو لیکر یہ کہا تھا تب سے ہم نے دیکھا کہ انڈیا نے تسلسل سے یہی پالیسی پکڑی ہوئی ہے۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ پرائم منسٹر شہباز شریف نے سب سے پہلے ایک آفر کی کاکول میں کہ آپ اس کی انوسٹیگیشن کرا لیں غیر جانبدارانہ دنیا بھر میں جس سے مرضی چاہے کرا لیں، وہاں سے ہماری سفارت کاری کا عمل شروع ہوا، انڈیا دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، جو سب سے بڑا ان کا ٹرمپ کارڈ تھا یعنی پریذیڈنٹ ٹرمپ وہ ان ہی کے گلے پڑ گئے۔

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے لیتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، تمام پاکستانیوں کو اب ایگریسیو پالیسی اپنانا پڑے گی، ڈپلومیٹس کوا پنی سطح پر، وزرا کو اپنی سطح پر، جو اوورسیز پاکستانی ہیں ان کو بھی بتانا پڑے گا کہ مودی کا اقلیتوں کے بارے میں کیا رویہ ہوتا ہے اور کس طرح ان مارا جاتا ہے، جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی دوسری طرف آگئی ہے کیونکہ ایک محاذ اگر اس کا نقصان ہوا ہے تو وہ دوسری طرف آ گیا ہے، اب یہ پاکستان کے خلاف کھلی دہشت گردی پر اتر آیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ دنیا میں سے پہلے

پڑھیں:

مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟

دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء انہی سرزمینوں میں سے ایک ہے، جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کااستعارہ بن چکی ہیں۔ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسندسربراہ،جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدار کا زعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے، توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظرآتاہے، مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگریہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہے جوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی، جواخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہے بلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہے جس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکے منافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہے جوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھا کیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِ قوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدارمیں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے، وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائے گئے،طیارہ تقدیرکے دوش پرپاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پرفرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرارکیا،تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتربادل گرجتے تھے، اب کہنے لگے کہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویا شکست کوسبکی میں ملفوف کرکے پیش کیاجائے، اورخون کے رسنے کولفظوں کے رومال سے چھپایاجائے مگرتاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضاں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے،بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ،چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کے نام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیاکہ ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتے ہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلے جا چکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں،اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہوچکا ہے۔ نیپال، چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرورکے قلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی، اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کا سامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہے جہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت نے اس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئے کیاگیاکہ مودی کوپاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنے اس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لادیاہے۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کے درمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے۔کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہے یایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیارکی،جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیاجبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیا جائے اوروہ جواب فتح کی جانب لے جائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے، لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے کمزوری اور حکمت کی کمی ہے۔جبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپر خاموش ہیں،جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے نواز شریف کا کچھ لینا دینا نہیں نہ وہ ملنے اڈیالہ جیل جارہے ہیں، عرفان صدیقی
  • ریاست مہاراشٹر میں روزانہ 8 کسان اپنی زندگی ختم کررہے ہیں، پرینکا گاندھی
  • گالیاں دینا جمہوریت نہیں جمہوریت دشمنی ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • کربلا اور کربلا والے!
  • مودی ایسے وزیراعظم ہیں جنہوں نے ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر سب سے زیادہ بیرون ممالک دورے کئے، موئترا
  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘
  • اسلامی اقدار کی روشنی میں توہین اور دھمکی کا دندان شکن جواب دینا ضروری ہے، علامہ امین شہیدی
  • عمر سے متعلق تنقید، اداکارہ ماہرہ خان نے والدہ کو کیا جواب دیا؟
  • پختونخوا میں تبدیلی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘عرفان صدیقی