سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں حکومت میں ہیں اور ملک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، حالات یہ ہیں کہ ملک کا دفاع قرضوں کی رقم سے کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عوام پاکستان پارٹی کے رہنماء اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرز حکمرانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں حکومت میں ہیں اور ملک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، حالات یہ ہیں کہ ملک کا دفاع قرضوں کی رقم سے کیا جا رہا ہے۔ لاہور میں عوام پاکستان پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول ہے، پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں حکومت میں ہیں مگر اس کے باوجود ملک کا کوئی پرسان حال نہیں دو کروڑ 70 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، پولیس سے نظام نہیں چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک سے سفارش ختم ہو چکی ہے، اب صرف رشوت کا بازار گرم ہے، جس ملک کا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بادشاہت کی طرز پر حکومت کریں وہ ملک نہیں چل سکتا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاست کا مقصد ہونا چاہیے جو ملکی ضرورت ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سیاست دان سیاست کا مقصد بھول گئے ہیں، ہم اپنی سیاسی سمت درست نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عزت دو کا ںعرہ لے کر چلی لیکن بعد ازاں اقتدار کو عزت دو کا نعرہ اپنا لیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کیا ہونا ہے اس کی کوئی بات نہیں کرتا، سیاست کو نفرت میں بدل دیا گیا ہے، ایک دوسرے پر برتری کے لیے سیاست کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود جماعتوں کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے، اسٹیبلشمنٹ جماعتیں بناتی ہیں مگر ہمارا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) صرف سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال ہو رہا ہے جبکہ سیاست دانوں کی کرپشن بڑھتی جارہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی کہ پاکستان نے کہا کہ ملک کا کہ ملک رہا ہے

پڑھیں:

غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟

2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔

اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔

اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔

اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔

نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان جوہری طاقت ہے ،خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کرینگے،چاہ کوئی بھی ملک ہو،اسحق ڈار
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
  • حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • شہباز شریف حکومت نے صرف 16 ماہ میں 13 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ کر کے قرضوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے