دہشت گردوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
حکومت نے کہا ہے بلوچستان کے ضلع خضدار میں دہشت گرد حملے کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس دہشت گردی میں فتنۃ الہندوستان ملوث ہے۔ اور یہ دہشت گردی ’’ را‘‘ کی سرپرستی میںکی گئی ہے۔ حکومت فتنۃ الہندوستان کے خلاف ضرب عضب جیسا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاہم فی الوقت انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری رہیں گے۔
اس بات کا اعلان پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وفاقی سیکرٹر ی داخلہ خرم آغا کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے ۔وفاقی سیکریٹری داخلہ محمد خرم آغا نے فتنۃ الہندوستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جیسے سانحہ اے پی ایس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا، اسی طرح قتنۃ الہندوستان کے خلاف بھی آپریشن کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور ان دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے گا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت اپنی دہشت گرد پراکسیز فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے ذریعے خطے اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے،ان پراکسیز کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر ان کے مذموم عزائم ناکام بنا دیں گے۔ہم نے بارہا بھارت اورعالمی برادری کے سامنے بھارتی دہشت گردی کے شواہد پیش کیے ہیں۔
ادھر سانحہ خضدار کی زخمی طالبہ ملائکہ شہید ہوگئی ہے ، یوں خضدار حملے میں شہید ہونے والے طلباء و طالبات کی تعداد 6 تک پہنچ گئی ہے، جن میں 5 طالبات اورایک طالب علم شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی خضدارمیں اسکول بس پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔خضدار میں دہشت گردی کی بازگشت عالمی سطح تک سنی گئی ہے کیونکہ یہ ایسا بہیمانہ اقدام ہے، جسے کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ، لہٰذا ایسا جرم کرنے والے مجرمان، ان کے سہولت کار اور سرپرست رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
ادھر خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں گزشتہ روز رات گئے ایک پولیس چوکی پر دہشتگردوں نے دھاوا بولا، جسے مقامی پولیس جوانوں نے بھرپور جوابی کارروائی کرکے ناکام بنا دیا ، اس مقابلے میں کئی دہشت گردوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کے بازار میں نامعلوم افراد کی چلتی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 2 افراد جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ الخواراج اور فتنتہ الہندوستان دونوں اپنی کارورائیوں میں مصروف ہیں اور ان کے درمیان پورا رابطہ موجود ہے۔اس کے علاوہ سی ٹی ڈی پنجاب نے ضلع میانوالی میں کارروائی کے دوران 3 دہشت گرد ہلاک کر دیے ہیں جب کہ 6 دہشت گرد فرار ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد پولیس چوکیوں پرحملے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے تھے ۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سی ٹی ڈی ٹیم کو تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر شاباش دی ۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے ، پنجاب میں دہشت گردی کے لیے آنے والوں کو سخت ترین جواب ملے گا ۔
پاکستان میں دہشت گردی کثیر الجہتی ہے لیکن دہشت گردی کی تمام جہتوں کا ہدف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پردہشت گردی ہورہی ہے جب کہ خیبرپختونخوا مذہب کا لبادہ اوڑھے دہشت گرد قتل وغارت میں ملوث ہیں۔ان کی پشت پناہی افغانستان اور بھارت کررہے ہیں۔گزشتہ روز ہونے پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ 2009 میں مصر کے شہر شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کو ڈوزیئر حوالے کیا گیا جس میں بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود تھے ۔
2010میں دستاویزی ثبوت جاری کیے گئے ۔ 2015 میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارتی دہشت گردی سے متعلق ایک ڈوزیئر پیش کیا۔2016میں بھارت کی سرپرستی میں بلوچستان میں دہشت گردی کو بے نقاب کیا گیا۔بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے بھارتی حکومت کی سرپرستی اور فنڈز کی فراہمی سے متعلق اعتراف کیا۔ 2019میں ٹھوس شواہد کے ساتھ ڈوزیئر اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریزینٹیشن کے ذریعے20 سال سے بھارتی سرپرستی میں جاری دہشت گردی سے متعلق حقائق میڈیا کے سامنے پیش کیے اور بتایا کہ 21مئی کو معصوم بچوں پر بزدلانہ حملہ بھارت کا دہشت گرد چہرہ اور فتنہ الہندوستان کا ظالمانہ اور حقیقی چہرہ ہے۔
خضدارحملے میں انسانیت ، اخلاقیات ، بلوچی اقدار اور پاکستانیت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا بلوچی اقدار سے کیا تعلق ہے؟ پاکستانی مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ اس کا اسلام اور انسانیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ کون سی آئیڈیالوجی ہے۔
یہ آئیڈیالوجی نہیں حیوانیت ہے، اس لیے یہ فتنہ الہندوستان ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت نے فتنہ الہندوستان سمیت اپنی پراکسیز کو متحرک کیا جن کا ایمان صرف پیسہ ہے۔انھوں نے کہا بھارت کے اطلاعاتی ذرایع بھی فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں،4 نومبر کو میانوالی پر حملے سے قبل بھارتی میڈیا نے کہا کہ چند گھنٹے میں اہم واقعہ ہونے والا ہے اور اگلی صبح انھوں نے گڈ مارننگ میانوالی کہا اور اس حملے سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبریں نشر کیں، 6 اکتوبر2024 کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملہ ہوا، جعفر ایکسپریس پر حملے سے پہلے بھی ایسی خبریں چلائی جاتی رہیں،خضدار کے المناک سانحہ کے بعد بھارت کے’’را‘‘سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پروپیگنڈا کیا گیا۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں لاکھوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلا رہی ہیں جو فتنہ الخوارج کی حمایت کرتے ہیں، یہ وہی ہیں جو ڈس انفولیب چلا رہے تھے۔
بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے، غیرملکی اور ان کے مقامی سہولت کار کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے غریب اور پسماندہ عوام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلوچ قوم پرستی کے نام پر سیاسی گروہ ہوں یا پشتوں قوم پرستی کی نام لیوا سیاسی جماعتیں، ان کو کسی الیکشن میں کامل اکثریت نہیں ملی ہے۔
حالانکہ یہ سیاسی جماعتیں جمہوری کلچر کے مطابق الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، اگر ان جمہوری قوم پرستی سیاسی جماعتوں کو کلی اکثریت نہیں ملتی تو بندوق اٹھانے والے دہشت گردوں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کیسے پسند کرسکتے ہیں۔ دہشت گرد اور بندوق بردار گروہ عوام کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں، عوام ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے شر سے ڈرتے ہیں۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، بی این پی، بی این ایم ، باپ پارٹی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی جمہوری سیاست کررہی ہیں، بلوچستان کے عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں۔
لیکن بندوق بردار دہشت اور خوف کی فضا پیدا کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود لوگ منتخب نہیں ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچستان سماجی و معاشی طور ماضی کی نسبت خاصا آگے بڑھ چکا ہے ، ریکوڈک آپریشنل ہو رہا ہے، کثیر ملکی شراکت دار یہاں آنے کے لیے تیار ہیں، بلوچستان کی بلیو اکانومی پر معاہدے ہو رہے ہیں، لاکھوں ایکڑ اراضی کو قابل کاشت بنایا گیا ہے، گوادر بندرگاہ اور گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ فعال ہیں، بلوچستان کے 73 ہزار طلبا صوبائی حکومت کے اسکالرشپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، شاہراہوں کے نیٹ ورکس کو توسیع دی گئی، اسپتال اور ڈائیلائسز سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری عمل مسلسل جاری ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ پوری طرح فعال ہے اور اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ صوبائی اسمبلی بھی اپنا جمہوری رول ادا کر رہے ہیں۔ بی ایل اے اور اس جیسے دیگر مسلح گروہ بلوچ عوام کی نمایندگی نہیں کرتے۔
ان لوگوں کے پاس کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے اور نہ ہی بلوچستان کے عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے کوئی معاشی پروگرام ہے۔ ویسے بھی دہشت گرد گروہوں کو سیاسی اور جمہوری نظریات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ان کا نظریہ ’’مارو اور لوٹ مار کرو‘‘ کے سوا کوئی اور نہیں۔
اس وقت افغانستان میں طالبان اقتدار میں ہیں۔ ماضی میں یہ لوگ مسلح کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور خود کو اسلام پسند اور مجاہدین قرار دیتے رہے ہیں۔ اب وہ اقتدار میں ہیں لیکن افغانستان کی حالت سب کے سامنے ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طالبان کے پاس بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کوئی نظریہ نہیں ہے۔ کوئی معاشی روڈ میپ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی روڈ میپ موجود ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فتنہ الہندوستان بلوچستان میں بلوچستان کے قوم پرستی انھوں نے کرتے ہیں کے عوام کیا گیا نہیں ہے رہے ہیں کے لیے اور ان ہے اور گئی ہے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد:ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہل کاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔
گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟