متنازع ڈومیسٹک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں 8 بنگلہ دیشی پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمے کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کی معزول حکومت سے منسلک سابق سینیئر شخصیات کے خلاف مقدمہ چلانے والی خصوصی عدالت میں پہلا مقدمہ دائر کردیا۔
دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم عدالت میں گزشتہ سال 5 اگست کو، جب شیخ حسینہ ملک سے فرار ہوئیں اور مظاہرین نے ان کے محل پر دھاوا بول دیا تھا، 6 مظاہرین کی ہلاکت کے سلسلے میں 8 پولیس اہلکاروں کے خلاف باضابطہ فرد جرم قبول عائد کردی گئی۔
ان 8 اہلکاروں پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے، 4 زیر حراست ہیں اور 4 کی غیر حاضری میں مقدمہ چل رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بنگلہ دیش کے ڈومیسٹک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل (آئی سی ٹی) کے چیف پروسیکیوٹر تاج الاسلام نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ باقاعدہ مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ استغاثہ ملزمان کے ذریعے کیے گئے جرائم کو ثابت کر سکے گا۔‘
پچھلے سال بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے 15 سالہ آہنی اقتدار کے خاتمے کا باعث بننے والی طلبا کی قیادت میں برپا بغاوت کے دوران ہلاکتوں سے متعلق کسی بھی مقدمے میں یہ پہلا باضابطہ مقدمہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، جولائی اور اگست 2024 کے درمیان شیخ حسینہ کی حکومت نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے وحشیانہ مہم شروع کی تو اس میں مجموعی طور پر 1,400 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں:
مقدمے کا سامنا کرنے ملزمان کی فہرست میں ڈھاکہ کے سابق پولیس کمشنر حبیب الرحمان بھی شامل ہیں، جن کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہوگئی تھیں، وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ڈھاکہ کی حوالگی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے خود ساختہ جلاوطنی میں ہے۔
حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے سینیئر شخصیات کے ٹرائلز کا آغاز کئی سیاسی جماعتوں کا ایک اہم مطالبہ ہے جو اب برسر اقتدار آنے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ بنگلہ قوم ان انتخابات کا انتظار کر رہی ہے جس کا عبوری حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جون 2026 سے قبل منعقد ہوں گے۔
مزید پڑھیں:
چیف پروسیکیوٹر تاج الاسلام کے مطابق مذکورہ 8 اہلکاروں پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں سب سے سینیئر اعلیٰ کمانڈ کی ذمہ داری، کچھ براہ راست احکامات کے لیے اور بعض شراکت کے لیے شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں کامیاب مقدمہ چلانے کا یقین ہے، ’ہم نے قومی اور بین الاقوامی معیار پر انسانیت کے خلاف جرائم کو ثابت کرنے کے لیے جتنے شواہد درکار ہیں جمع کرائے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان شواہد میں تشدد کی ویڈیو فوٹیج کے ساتھ ساتھ شیخ حسینہ واجد کی مختلف لوگوں سے بات چیت کی آواز کی ریکارڈنگ بھی تھی، جس میں انہوں نے طاقت اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو مارنے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے 2009 میں قائم کیا تھا، جس نے بعد میں متعدد ممتاز سیاسی مخالفین کو موت کی سزا سنائی تھی، اور اس ٹریبونل کو حسینہ واجد کے سیاسی حریفوں کو ختم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈومیسٹک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈومیسٹک انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل حسینہ واجد نے کے لیے کے خلاف
پڑھیں:
بنگلا دیش: سابق پولیس سربراہ کا انسانیت کے خلاف جرائم کا اعتراف، حسینہ واجد پر فرد جرم عائد
ڈھاکا میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر بنگلا دیش کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری عبداللہ مامون نے گزشتہ سال ہونے والے مظاہروں کے خلاف کارروائی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا اعتراف کرلیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
بین الاقوامی جرائم ٹریبونل (آئی سی ٹی) میں جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ سابق آئی جی پی نے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مامون جولائی اور اگست 2024 میں ہونے والی بغاوت کے دوران کیے گئے جرائم کے بارے میں اپنی تمام معلومات فراہم کریں گے۔ عدالت نے ان کی حفاظت کے لیے علیحدہ رہائش کی بھی منظوری دے دی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جولائی سے اگست کے دوران شیخ حسینہ حکومت کے خلاف ہونے والے طلبا کے مظاہروں کو کچلنے کی کوششوں میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آئی سی ٹی اب حسینہ کی معزول حکومت اور ان کی کالعدم جماعت عوامی لیگ سے وابستہ سابق اعلیٰ حکام کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
ٹریبونل نے جمعرات کو شیخ حسینہ اور ان کے سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کے خلاف الزامات ختم کرنے کی وکلا کی درخواست مسترد کر دی۔ دونوں شخصیات پر اس مقدمے میں باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ حسینہ واجد کے سرکاری وکیل عامر حسین نے کہا کہ مقدمہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں کئی قانونی کارروائیاں باقی ہیں۔
یاد رہے کہ 77 سالہ حسینہ واجد مظاہروں کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت فرار ہوگئی تھیں، جس کے ساتھ ہی ان کے 15 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ انہوں نے ڈھاکا واپس آنے کے لیے جاری کیے گئے حوالگی کے حکم کو نظر انداز کیا اور یکم جون سے ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر قتل عام کی روک تھام میں ناکامی، سازش، معاونت، اشتعال اور شریک جرم ہونے سمیت کم از کم پانچ سنگین الزامات عائد ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 2 جولائی کو شیخ حسینہ کو ایک الگ مقدمے میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ فرار وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کے بارے بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں موجود ہیں۔ استغاثہ کا موقف ہے کہ مظاہروں کے دوران ہونے والے تشدد کی تمام تر ذمے داری براہ راست شیخ حسینہ پر عائد ہوتی ہے۔