ایشیائی جوجِتسو چیمپئن شپ میں نوجوان پاکستانی باکسر بانو بٹ نے بھارتی حریف رِچا شرما کو شکست دے کر طلائی تمغہ جیت لیا۔نویں ایشیائی جوجِتسو چیمپئن شپ 23 سے 25 مئی تک اردن میں منعقد ہوئی، اس چیمپئن شپ میں کئی ایشیائی ممالک نے شرکت کی، با نو بٹ نے اپنی مہارت، حوصلے اور عزم سے بھارتی حریف کو ناک آؤٹ کر کے شاندار کامیابی حاصل کی۔پاکستانی ٹیم نے ایونٹ میں ایک سونا اور متعدد کانسی کے تمغے اپنے نام کیے، با نو بٹ جیسے پُرعزم نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں، کھیل، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں پاکستانی نوجوان دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا قائل کر رہے ہیں۔ایشیائی جوجِتسو چیمپئن شپ میں نوجوان پاکستانی باکسر بانو بٹ نے بھارتی حریف رِچا شرما کو شکست دے کر طلائی تمغہ جیت لیا۔نویں ایشیائی جوجِتسو چیمپئن شپ 23 سے 25 مئی تک اردن میں منعقد ہوئی، اس چیمپئن شپ میں کئی ایشیائی ممالک نے شرکت کی، با نو بٹ نے اپنی مہارت، حوصلے اور عزم سے بھارتی حریف کو ناک آؤٹ کر کے شاندار کامیابی حاصل کی۔پاکستانی ٹیم نے ایونٹ میں ایک سونا اور متعدد کانسی کے تمغے اپنے نام کیے، با نو بٹ جیسے پُرعزم نوجوان عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں، کھیل، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں پاکستانی نوجوان دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا قائل کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ایشیائی جوج تسو چیمپئن شپ چیمپئن شپ میں بھارتی حریف کر رہے ہیں

پڑھیں:

یمن کو شکست دینا آسان نہیں

اسلام ٹائمز: یمن میں زمینی افواج بھیجنے کا امکان امریکہ یا اسرائیل میں سے کسی ایک کے لیے بھی مناسب نہیں ہے، کیونکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ مصریوں نے 1960ء کی دہائی میں یمن میں مداخلت کی، لیکن ناکامی انکا مقدر بنی۔ آج حالات مختلف ہیں، لیکن جغرافیہ وہی ہے۔ لہذا یمن کا جغرافیائی حجم ایک اور وجہ ہے کہ زمینی افواج کیساتھ بھی انکا مقابلہ کرنا نہایت مشکل اور مہنگا ہے اور امریکہ اور اسرائیل شاید یمن میں زمینی افواج بھیج کر مشرق وسطیٰ میں اپنے لیے ایک اور دلدل پیدا نہیں کرنا چاہتے، ایسی دلدل جس میں داخل ہونا تو آسان ہے لیکن نکلنا بہت مشکل ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

"اسرائیل نہیں جانتا کہ یمنی مسئلے کو کیسے حل کرے۔" یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ عبرانی زبان کے اخبار Haaretz کی سرخی ہے، جس میں یمنی افواج کا مقابلہ کرنے میں تل ابیب کی بے بسی اور تعطل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو دنوں کے دوران صنعا سے یمنی فورسز نے مقبوضہ فلسطین کے اہداف پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے ہیں، جس سے صیہونیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یمن نے یہ ثابت کیا ہے کہ یمن  اکیلا ہی اسرائیلی فوج کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں اسرائیلی ذرائع تل ابیب کی اس الجھن کی بات کرتے ہیں کہ یمنی چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔

امریکا کا اعلان شکست
تقریباً 2 ماہ قبل 6 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ یمن پر اپنے حملے بند کر دے گا۔ امریکہ نے 15 مارچ سے یمن پر اپنے فضائی حملے شروع کئے تھے اور اچانک یمن کے مشرقی پڑوسی عمان نے اعلان کیا کہ اس نے یمن میں امریکہ اور انصار اللہ کے درمیان تنازع ختم کرنے کے لیے ثالثی کی ہے۔ لیکن یمن پر سات ہفتوں کی امریکی جنگ کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یمنیوں نے ہتھیار ڈال دیئے بلکہ امریکہ اور برطانیہ دونوں ممالک کے بڑے پیمانے پر فضائی حملے 53 دن تک جاری رہے، لیکن وہ غزہ کے دفاع میں جاری یمنی حملوں کو نہ روک سکے اور آخرکار ٹرمپ انتظامیہ کو ایک بڑی قیمت پر جنگ بندی کا اعلان کرنا  پڑا۔ امریکہ نے یمن میں اپنے تین لڑاکا طیاروں کو نقصان پہنچنے کا اعتراف کیا۔ یمن نے امریکہ سے جنگ بندی کے موقع پر ایک بار پھر کہا کہ جب تک غزہ پر حملے بند نہیں ہوتے، اسرائیل پر بھی حملے بند نہیں ہوں گے۔

تقریباً دو ماہ قبل یمنی فورسز نے اسرائیل پر طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل داغا تھا۔ اگرچہ اسرائیلی ایئر ڈیفنس نے میزائل کا پتہ لگا لیا، لیکن اسے روکا نہ جا سکا اور اسرائیل کے بین گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب گرا، جس سے ایک گڑھا بن گیا اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فضائیہ نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ ممکنہ وجہ میزائل پر لانچ کیے گئے انٹرسیپٹر سسٹم میں تکنیکی خرابی تھی۔ یہ حملہ صیہونیوں پر یمنی افواج کا پہلا یا آخری حملہ نہیں تھا۔ یمنی فوج گذشتہ بیس مہینوں میں درجنوں بار اسرائیل پر حملے کرچکی ہے، جبکہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ جاری ہے۔ یمنی فوج نے غزہ جنگ کے بعد اسرائیل پر اپنے حملے شروع کئے تھے۔

یمن نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا اور اسرائیل کی طرف جانے والے جہازوں پر پابندی لگا دی۔ آج تک، اسرائیل نے یمن پر کم از کم آٹھ بڑے فضائی حملے کیے ہیں، جن میں سے ایک بڑا حملہ بن گوریون ہوائی اڈے کے قریب یمنی میزائل حملے کے جواب میں کیا گیا ہے۔ یمنیوں کے خلاف اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کی فضائی طاقت کے استعمال کے باوجود اس گروہ کو جنگ میں شکست دینا انتہائی مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی یمنی 2015ء اور 2022ء کے درمیان سعودی قیادت میں فوجی اتحاد کے خلاف مزاحمت کرنے میں کامیاب رہے تھے اور یہ سعودی عرب ہی تھا، جس نے بالآخر یمن کے ساتھ جنگ ​​بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

یمن کو شکست دینا اتنا مشکل کیوں ہے؟
ریاض نے 2015ء میں یمن میں انصاراللہ کی اس وقت مخالفت کی، جب انصاراللہ فورسز نے صنعا میں حکومت قائم کی۔ سعودیوں نے جدید امریکی ساختہ جنگی طیارے اور گولہ بارود استعمال کیا۔ تاہم صنعاء میں فوج اور حکومت نہ صرف سعودی عرب اور ریاض کے دوسرے اتحادیوں کی بمباری کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ بمباری کے دوران اپنی عسکری صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر یمن کے خلاف سعودی جنگ کے دوران یمنی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرون حملہ آوروں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یمنی افواج کو روکنے کی کوششیں اب تک کئی وجوہات کی بنا پر ناکام رہی ہیں۔ ان کی وجوہات درج ذیل ہیں۔

یمنیوں کی میزائل صلاحیت:
یمنی افواج اور اس ملک کی فوج نے ثابت کیا ہے کہ وہ یمنی سرزمین پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور تعیناتی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ برسوں کے دوران، یمنیوں نے میزائل بنانے کے لیے کافی مواد کا ذخیرہ کیا ہے یا وہ سمندری راستوں سے ان مواد تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یمن کا وسیع علاقہ
 اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ یمن کے کافی بڑے حجم کے پیش نظر اس ملک کی فوج اپنے میزائل لانچرز کو چھپا کر مختلف مقامات سے میزائل داغ سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یمنی فوج ٹھوس اور مائع ایندھن والے میزائل استعمال کرتی ہے۔

یمنی فوج کی ڈرون صلاحیت:
یمنیوں کی ڈرون تک رسائی نے ان کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ آج، یمنیوں کو تقریباً تمام قسم کے ڈرونز تک رسائی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر شاہد 136 ڈرون پہلی بار 2021ء میں یمن میں دیکھا گیا تھا اور دیگر جنگی ڈرون بھی یمنی فورسز کے قبضے میں ہیں۔

اسرائیل کی فضائی دفاع میں ناکامی:
درحقیقت صنعا میں یمنی افواج کے ساتھ اسرائیل کا ناکام تصادم امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک بڑے چیلنج کی علامت ہے۔ امریکی اور اسرائیلی فضائیہ اب تک یمنی افواج کو دبانے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ اسرائیلی فضائیہ کا کہنا ہے کہ وہ یمن سے داغے گئے پچانوے فیصد سے زیادہ میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ یمنی میزائل اسرائیل میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اسرائیل کا فضائی دفاع یا یمن پر بمباری یمن کے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں  ابھی تک ناکام رہی ہے۔

زمینی افواج بھیجنے میں دشواری:
دوسری طرف یمن میں زمینی افواج بھیجنے کا امکان امریکہ یا اسرائیل میں سے کسی ایک کے لیے بھی مناسب نہیں ہے، کیونکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ مصریوں نے 1960ء کی دہائی میں یمن میں مداخلت کی، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ آج حالات مختلف ہیں، لیکن جغرافیہ وہی ہے۔ لہذا یمن کا جغرافیائی حجم ایک اور وجہ ہے کہ زمینی افواج کے ساتھ بھی ان کا مقابلہ کرنا نہایت مشکل اور مہنگا ہے اور امریکہ اور اسرائیل شاید یمن میں زمینی افواج بھیج کر مشرق وسطیٰ میں اپنے لیے ایک اور دلدل پیدا نہیں کرنا چاہتے، ایسی دلدل جس میں داخل ہونا تو آسان ہے لیکن نکلنا بہت مشکل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بحریہ نے 13 افسران کو ستارہ امتیاز (ملٹری) 11 افسران کو تمغہ امتیاز سے نواز دیا
  • مصر کے جونیئر اسکواش چیمپئن محمد ذکریا کو پاکستان کیجانب سے اسپانسرشپ مل گئی
  • پاک بحریہ کے اہلکاروں کو عسکری اعزازات تفویض
  • جنگ سے قبل بھارتی پورٹ جانیوالا پاکستانی جہاز کہاں ہے؟ تفصیل سامنے آ گئی
  • بھارت اور پاکستان کی نئی نسل اپنی قسمت خود لکھ سکتی ہے; بلاول بھٹو
  • بھارت اور پاکستان کی نئی نسل اپنی قسمت خود لکھ سکتی ہے، بلاول بھٹو
  • اصلاحات کے باوجود پاکستان کا ٹیکس 2 جی ڈی پی تناسب خطے میں کم ترین قرار
  • سری لنکا نے بنگلادیش کیخلاف ون ڈے سیریز جیت لی
  • انڈر 18 ایشیاء کپ میں پاکستان بمقابلہ چین
  • یمن کو شکست دینا آسان نہیں