پنجاب میں ٹریفک قوانین کی بڑی خلاف ورزیاں، فینسی نمبر، پلیٹس کالے شیشوں والی کتنی گاڑیاں پکڑی گئیں؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
پنجاب میں گزشتہ چند سالوں سے بڑھتے ہوئے جرائم، اغوا برائے تاوان، کار جیکینگ اور دہشتگردی کے واقعات اور وی وی آئی پی موومنٹ کے دوران سکیورٹی خطرات کے پیش نظر صوبائی حکومت اور پولیس نے سنہ 2024 سے غیر قانونی اور فینسی نمبر پلیٹوں نیز کالے شیشوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں کالے شیشوں اور فینسی نمبر پلیٹس کے خلاف کریک ڈاؤن، 45 گاڑیاں بند، 560 چالان جاری
پنجاب پولیس کے مطابق فینسی نمبر پلیٹس اور کالے شیشوں کا استعمال زیادہ تر جرائم پیشہ عناصر، اغوا کار گروہ اور دہشت گرد کرتے تھے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی شناخت ممکن نہیں ہو پاتی تھی۔
اسی تناظر میں چیف منسٹر پنجاب مریم نواز نے سنہ 2024 کے آخر میں ٹریفک پولیس اور سٹی ٹریفک افسران کو ہدف دے دیا تھا کہ سنہ 2025 میں صوبے سے غیر قانونی نمبر پلیٹیں اور کالے شیشے مکمل طور پر ختم کیے جائیں۔
اسی ہدف کے تحت رواں سال جنوری سے اکتوبر 2025 تک پنجاب بھر میں ٹریفک قوانین کی اب تک کی سب سے بڑی مہم چلائی گئی۔
وی نیوز کو موصول ہونے والی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں 7 لاکھ 94 ہزار سے زائد گاڑیوں پر غیر قانونی، فینسی یا نقلی نمبر پلیٹس لگانے کے چالان کیے گئے جن پر 20 کروڑ 21 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ عائد ہوا۔
مزید پڑھیے: کراچی: ڈی آئی جی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر ای چالان کی زد میں آگئے
اسی دوران کالے شیشوں کے خلاف بھی صوبہ بھر میں سخت کارروائی کی گئی اور 2 لاکھ 2 ہزار سے زائد گاڑیوں کے چالان کیے گئے جن پر مجموعی طور پر 10 کروڑ 14 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ وصول کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ مہم نہ صرف ٹریفک قوانین کی پاسداری یقینی بنانے بلکہ جرائم کی روک تھام کے لیے بھی چلائی جا رہی ہے کیونکہ کالے شیشے اور غیر قانونی نمبر پلیٹیں اکثر جرائم پیشہ عناصر استعمال کرتے ہیں۔
شہروں کے اعتبار سے لاہور ایک بار پھر سب سے آگے رہا جہاں 3 لاکھ سے زائد غیر قانونی نمبر پلیٹس اور 64 ہزار سے زائد کالے شیشوں کے چالان ہوئے۔
مزید پڑھیں: مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کا ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان
فیصل آباد، گوجرانوالہ اور ملتان بھی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سرفہرست رہے۔ رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ میں 41 ہزار، فیصل آباد میں 33 ہزار اور ملتان میں 30 ہزار سے زائد غیر قانونی نمبر پلیٹس پکڑی گئیں جبکہ راولپنڈی میں 98 ہزار، سیالکوٹ میں 25 ہزار، سرگودھا اور اوکاڑہ میں 21، 21 ہزار چالان کیے گئے۔
کالے شیشوں کے کیسز میں بھی فیصل آباد 23 ہزار سے زائد چالانوں اور ایک کروڑ 16 لاکھ روپے سے زیادہ جرمانے کے ساتھ سرفہرست رہا جبکہ ملتان میں 13 ہزار سے زائد چالان اور 67 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کریک ڈاؤن، 35 ہزار موٹرسائیکل سواروں کا چالان
ٹریفک پولیس حکام نے بتایا کہ یہ مہم ابھی جاری ہے اور آئندہ دنوں میں مزید سخت کارروائی کی جائے گی تاکہ شہری ٹریفک قوانین کی پابندی کریں اور سڑکوں پر امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب فینسی نمبر پلیٹس کالے شیشوں والی گاڑیاں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فینسی نمبر پلیٹس ٹریفک قوانین کی کالے شیشوں کے لاکھ روپے سے نمبر پلیٹس فینسی نمبر چالان کی
پڑھیں:
امید پورٹل پر اب تک کتنی لاکھ وقف املاک رجسٹر ہوئیں اور کتنی منظور ہوئیں
زمین کی پیمائش کیلئے مختلف ریاستوں میں زمین کی پیمائش کے مختلف معیارات ہوتے ہیں جس سے تکنیکی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت بھر میں وقف املاک کو لے کر افراتفری کی صورتحال جاری رہی۔ متولی اور تنظیمیں الزام لگا رہی تھیں کہ حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہیں املاک کے رجسٹریشن کی آخری تاریخ اختتام پذیر ہو چکی ہے۔یہ پورٹل چھ ماہ تک کام کرتا رہا اور مقررہ مدت پوری ہونے کے بعد اسے اپ لوڈ کرنے کے لئے بند کر دیا گیا۔ اقلیتی امور کی وزارت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امید پورٹل پر 216,905 وقف املاک کو منظوری دی گئی ہے۔ امید پورٹل پر کل 5.17 لاکھ جائیدادوں کا اندراج کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کل اثاثوں میں سے صرف ایک چوتھائی کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ باقی لاکھوں اثاثوں کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔
کرناٹک نے 65,242 میں سے 52,917 جائیدادوں کا اندراج کیا، جو تقریباً 81 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے بعد پنجاب اور جموں و کشمیر کا نمبر آتا ہے۔ جموں کشمیر نے 77 وقف املاک کا اندراج کیا ہے۔ سب سے کم املاک کا رجسٹرین مغربی بنگال نے کیا ہے۔ مغربی بنگال میں 80,480 وقف املاک موجود ہیں جن میں سے صرف 716 کا اندراج کیا گیا جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے زیادہ وقف املاک کی بات کریں تو اترپردیش پہلے نمبر ہے۔ سنی اور شیعہ بورڈ کے مشترکہ طور پر تقریباً 2.4 لاکھ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال، پنجاب، تمل ناڈو اور کرناٹک ہیں۔ کروڑوں روپے کی ان جائیدادوں کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کرنے میں ناکامی حکومت کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔
مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 6 جون 2025ء کو مرکزی پورٹل کا آغاز کیا اور وقف ایکٹ 1995ء اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق جائیداد کی تفصیلات اپ لوڈ کرنے کے لئے چھ ماہ کی آخری تاریخ 6 دسمبر 2025ء کو باضابطہ طور پر ختم ہوگئی۔ وزارت نے کہا کہ آخری تاریخ کے قریب آتے ہی رجسٹریشن کی رفتار میں نمایاں تیزی آئی تھی۔ مزید 213,941 جائیدادوں کی حتمی منظوری زیر التوا ہے، جب کہ تصدیق کے دوران 10,869 جائیدادیں مسترد کر دی گئیں۔ سب سے زیادہ وقف املاک اترپردیش میں رجسٹرڈ ہوئیں (92,830) جن میں 86,345 سنی اور 6,485 شیعہ وقف املاک شامل ہیں۔ اس کے بعد مہاراشٹر (62,939) اور کرناٹک (58,328) کا نمبر آتا ہے۔
وقف املاک کی رجسٹریشن کے دوران وقف بورڈ اور متولیوں، جائیداد کے نگراں کو اس سارے عمل میں بے شمار عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پورٹل کا سرور کریش ہونا عام بات ہوگئی تھی جس کے سبب املاک کے رجسٹریشن میں کافی دشواریوں کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ برسوں پرانی جائیدادوں کے دستاویزات کو تلاش کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلینج تھا۔ زمین کی پیمائش کے لئے مختلف ریاستوں میں زمین کی پیمائش کے مختلف معیارات ہوتے ہیں جس سے تکنیکی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ جو لوگ تین ماہ کے اندر اپنی جائیدادوں کا اندراج نہیں کرواتے ہیں ان پر جرمانہ نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں وقف ٹریبونل کے ذریعے رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع کا آپشن کھلا رکھا گیا ہے۔