Daily Ausaf:
2025-05-27@20:39:18 GMT

دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
مثال کے طور پر ان علماء کرام نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں حکومت کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوگی اور منتخب قیادت ہی ملک پر حکمرانی کی اہل ہوگی۔ ہمارے خیال میں یہ اتنا بڑا اجتہادی فیصلہ ہے جسے خلافت عثمانیہ اور مغل حکومت کے صدیوں سے چلے آنے والے خاندانی سیاسی ڈھانچوں کے تناظر میں گزشتہ صدی کے دوران علماء کرام کا سب سے بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات پر غور کر لیا جائے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات میں وحدانی طرز حکومت کو ملک کے لیے موزوں قرار دیا تھا لیکن جب ۷۳ء کے دستور کی تشکیل کے دوران انہوں نے حالات کا تقاضا دیکھا تو وحدانی طرز حکومت کے بجائے وفاقی پارلیمانی نظام کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کوئی سوال اور اشکال کھڑا نہیں کیا بلکہ اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دلواتے ہوئے وفاقی پارلیمانی نظام کو اس کے سسٹم کے طور پر قبول کر لیا۔ اسے اگر اجتہادی عمل تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف ان علماء کرام کے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ خود اجتہاد کے مفہوم ومعنی سے بھی ناواقفیت کا اظہار ہوگا۔
تھوڑا سا اور آگے بڑھیں تو ایک اور منظر آپ کے سامنے آپ کی توجہ کا طلب گار ہے اور وہ ۷۳ء کے دستور کے تحت قائم ہونے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ہے جو اس نے ملکی قوانین کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں ضروری ترامیم کے لیے مرتب کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملکی قوانین کا جائزہ لیا ہے، ان پر نظر ثانی کی ہے، قرآن وسنت کے اصولوں کو دیکھا ہے، حالات کے تقاضوں اور ضروریات کو جانچا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر سرکردہ ارباب دانش کی مشاورت سے تمام مروجہ قوانین کے حوالے سے اپنی سفارشات ترتیب دی ہیں۔ میرا ملک بھر کے اہل دانش سے سوال ہے کہ کیا یہ اجتہادی عمل نہیں ہے؟ اس اجتہادی عمل کو تو علماء کرام نے صرف اپنے دائرہ تک محدود رکھنے پر بھی اصرار نہیں کیا۔ اس میں نہ صرف جدید قانون اور دیگر مختلف شعبوں کے ماہرین شامل چلے آ رہے ہیں بلکہ اس کی سربراہی بھی کبھی روایتی حلقہ کے کسی عالم دین کے پاس نہیں رہی۔ اس میں ہر مکتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء کرام مختلف اوقات میں شریک رہے ہیں۔ علماء کرام نے پوری دل جمعی اور شرح صدر کے ساتھ اس اجتہادی عمل کو آگے بڑھایا ہے اور آج اس کونسل کی سفارشات کو ملک میں بطور قانون نافذ کرانے کے لیے بھی سب سے زیادہ علماء کرام کی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اس لیے یہ کہنا کہ عملی اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے مکمل طور پر بند چلا آ رہا ہے اور علماء کرام نے کسی دور میں بھی کسی درجہ کے اجتہاد سے کام نہیں لیا، تاریخی حقائق اور تسلسل کے منافی ہے۔
ہماری ان معروضات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا اور بدلتے ہوئے حالات جن امور کا تقاضا کرتے ہیں، وہ سب کچھ ہو رہا ہے اور علماء کرام اور دینی حلقے ہر قسم کے اعتراض اور سوال سے بری الذمہ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور خود ہمیں اس سلسلے میں بہت سے اشکالات ہیں جن کا تذکرہ ہم اس کے بعد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی طبقہ کے کردار کی کلی نفی کرتے ہوئے اگر آپ اس سے اپنی شکایات پر بات کرنا چاہیں گے تو آپ کی جائز شکایات بھی قابل توجہ نہیں سمجھی جائیں گی۔ اس لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جتنا کام ہو رہا ہے، اس کا اعتراف کیا جائے اور کام کرنے والوں کو اس کا کریڈٹ دیا جائے۔ اس کے بعد جو کام نہیں ہو رہا، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلائی جائے اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے قابل قبول تجاویز دی جائیں۔
۴- دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو۔
اس کے بعد ہم ان ضروریات اور تقاضوں کی طرف آتے ہیں جو آج کے روز افزوں تغیر پذیر حالات میں اجتہاد کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمارے علمی مراکز اور دینی ادارے اپنی ترجیحات اور دائرہ کار سے ہٹ کر کوئی بات سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مراکز اور علمی اداروں نے اپنی علمی سرگرمیوں کو روز مرہ ضروریات کے دائرے میں محدود کر رکھا ہے اور وہ بھی اپنے الگ الگ ماحول میں جس سے ان کے کام کی افادیت اور تاثیر یقیناًمجروح ہو رہی ہے۔ انہیں جس بات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور جس کے لیے ان پر دباؤ ہوتا ہے، اس کے لیے وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں لیکن خود اپنی ذمہ داری پر ملی ضروریات کا جائزہ لینے اور امکانات کی بنیاد پر مسائل کے تعین اور ان کے حل کا کوئی نظام کسی مکتب فکر کے کسی علمی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’فقہ تقدیری‘‘کا وہ عظیم الشان علمی کام جو کسی دور میں ہمارے فقہا اور ائمہ کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا، وہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملی ضروریات کے حوالے سے اجتماعی علمی کاوش پرائیویٹ سیکٹر میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات کے بعد اب تک تعطل کا شکار ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری فورم پر دینی وملی مقاصد کے لیے مشترکہ علمی خدمات سرانجام دینے والے علماء کرام کو غیر سرکاری سطح پر انہی مقاصد کے لیے مل بیٹھنے اور دینی وعلمی مسائل مشترکہ طور پر طے کرنے میں حجاب کیوں ہے؟
قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کی ضرورت جس طرح سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی تھی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالم گیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی ہجری میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس وقت کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہیں تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ آج کوئی اورنگ زیب عالم گیرؒ طرز کا مسلم حکمران موجود نہیں جو نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اس لیے یہ دینی اداروں اور علمی مراکز کے ذمہ امت کا قرض ہے کہ وہ کوئی ایسا اجتماعی نظام وضع کریں کہ قدیم فقہی ذخیرہ پر موجودہ حالات کی روشنی میں نظر ثانی کر کے عرف وعادات، تعامل اور دیگر احوال وظروف کے تغیر کی وجہ سے جن مسائل کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے، اسے سرانجام دینے کی کوئی معقول اور قابل قبول صورت نکل آئے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علماء کرام نے اجتہادی عمل اور دینی نہیں ہے کے بعد کے لیے کی طرف ہے اور

پڑھیں:

مولانا اورنگزیب فاروقی کا خط

22مئی کو اوصاف میں صحابہؓ و اہل بیتؓ کے عنوان سے شائع ہونے والا کالم اللہ کے فضل و کرم سے قارئین میں بے حد پسند کیا گیا، اور اکثر قارئین نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی رائے بھی دی،جس سے اس خاکسار کو اندازہ ہوا کہ عوام، سیاست دانوں، حکمرانوں، اسٹیبلشمنٹ کی تعریف و تنقید کے کالموں سے اکتا چکے ہیں، صحابہ و اہل بیتؓ میرے آقا مولی ﷺ کے باغ کے وہ خوبصورت پھول ہیں کہ جن کی خوشبو سے زمانہ ساڑھے چودہ سو سال سے معطر ہے،صحابہ کرام ؓکی گواہی پہ پورے دین اسلام کی بنیاد استوار ہے۔ذیل میں ایک بہادر اور جرات مند عالم دین مولانا اورنگزیب فاروقی کا اس خاکسار کے نام لکھا گیا خط اس نیت سے مینارہ نور کی زینت بنا رہا ہوں کہ شائد کے اتر جائے کسی کے دل میں ہماری بات،مولانا فاروقی لکھتے ہیں کہ
’’محترم المقام ،برادر عزیز نوید مسعود ہاشمی اطال اللہ عمرک السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ازسلام مسنون خداوند حی لایموت سے آپ کی خیریت و عافیت مطلوب و مقصود ہے اور امید قوی ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ صحافی کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اور ایک بیدار مغز صحافی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بننے والے مسائل پر نظر رکھتا ہے، اور بروقت درست نشاندہی کر کے اس کے تدارک کی طرف ارباب اقتدار کی توجہ دلاتا ہے، یقینا آپ نے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بننے والے ایک اہم مسئلے کی طرف نشاندہی فرمائی ہے اور اپنی صحافتی ذمہ داری کا حق بہ حسن خوبی ادا کیا ہے، اس پر میں آپ کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ، اور دعا گو ہوں کہ ہمیشہ یوں ہی اپنی ذمہ داریاں ادا فرماتے رہیں۔ برادر عزیز! آپ نے بجا فرمایا کہ ’’حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین قرآنی شخصیات ہیں،تاریخی نہیں‘‘اس وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تاریخ کے اوراق کے بجائے قرآن کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔بڑی عام فہم سی بات ہے کہ نمک کے تولنے کا ترازو الگ ہے،کاٹھ کباڑ کے تولنے کا ترازو الگ ہے اور زیور کے تولنے کا ترازو الگ ہے،میں بھی اس حوالے سے چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو جانچنے اور پرکھنے کا اولا ً تو مخلوق میں کسی کو حق حاصل ہی نہیں ہے ،چونکہ ان کی تعدیل خودرب العالمین کلام مقدس میں فرما چکے ہیں اور پھر اللہ کے محبوب پیغمبر ﷺکے بے شمار فرامین میں ان کی دیانت و صداقت کا بڑے کھلے الفاظ میں تذکرہ موجود ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے کی گئی تصدیق کے بعد اب مخلوق میں کسی اور کی تصدیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ہاں البتہ اگر کوئی صحابہ کرامؓ کا تعارف جاننا چاہتا ہے تو اس کے لئے قران کریم کی 1200سے زائد آیات مبارکہ موجود ہیں۔
لفظ صحابہ میں اس کے مفہوم کی وسعت کے اعتبار سے وہ تمام مقدس افراد شامل ہیں کہ جو رسول کریمﷺ کی زندگی میں مسلمان ہوئے اور آپ ﷺ کی صحبت انہیں نصیب ہوئی، اب ان میں پھر دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جن کا رسول اللہ ﷺسے صرف ایمان کا رشتہ ہے ۔جیسے حضرت بلال حبشیؓ، حضرت صہیب رومی، حضرت سلمان فارسی(رضی اللہ تعالیٰ عنہم) ان افراد کو صرف صحابہؓ کہا جاتا ہے اور دوسرے خوش نصیب ترین افراد وہ ہیں جنہیں رشتہ ایمان کے ساتھ ساتھ ’’رشتہ داری‘‘کا شرف بھی حاصل ہے۔ ایمانی رشتے کے اعتبار سے ’’صحابہؓ ‘‘میں یہ تمام افراد شامل ہیں اور یہی رشتہ اصل رشتہ ہے۔ جبکہ بہت سے نام پیش کئے جا سکتے ہیں کہ جنہیں رشتہ داری کا حق تو حاصل تھا، مگر وہ دولت ایمان سے محروم رہے اور یہ محرومی اتنا بڑا نقصان ہے کہ حضور ﷺکے ساتھ رشتہ داری ان کے کسی کام نہیں آئی تو ہم جب لفظ صحابہ استعمال کرتے ہیں تو نبی کریم ﷺکے رشتہ دار بھی اس میں شامل ہیں۔ اغیار عام طور پر یہ تاثر دینے کے تگ و دو میں مصروف ہیں کہ ’’صحابہؓ الگ ہیں اور اہل بیتؓ الگ ہیں‘‘ جو کہ غلط ہے۔(لفظ اہل بیتؓ کا اصل مصداق تو رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں اور تب بقی اہل خانہ بھی شامل ہیں۔حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جماعت کو رسول اللہ ﷺکا ایک معجزہ کہا گیا ہے کہ وہ لوگ جو کسی زمانے میں ’’وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین‘‘کا مصداق تھے، تزکیہ نبوت کے بعد وہ ’’اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون‘‘کا مصداق بن گئے ، شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
جب اغیار صحابہؓ و اہل بیت ؓکے درمیان منافرت کے جھوٹے قصے تاریخ کی پبدبودار کتابوں سے پھیلانے کی سعی نام مشکور میں مشغول و مصروف ہیں تو ہم بھی اس کے تدارک اور روک تھام کے لئے تقریبا ًگزشتہ آٹھ سال سے مدارس عربیہ کی سالانہ تعطیلات میں نو روزہ دورہ تفسیر ایات عظمت صحابہؓ کا انعقاد کر رہے ہیں، جس میں سکول و کالج کے طلباء سمیت عام مسلمان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں، ہماری اہل سنت مجلس علمی نے قرآن کریم کی ان 1226آیات کا مجموعہ تیار کیا ہے، جن میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی صراحتاً یا اشارتاً تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ان آیات کریمہ کو ماہرین فن اساتذہ کرام پوری تحقیق و تفصیل کے ساتھ طلباء کرام کو پڑھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا مجموعہ ان احادیث نبویہ کا بھی جمع ہو چکا ہے، جن میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مدح و توصیف بیان کی گئی ہے، بہت جلد اسے بھی ہم اس کورس کا حصہ بنائیں گے۔ایک بیدار مغز صحافی ہونے کی حیثیت سے آپ نے جس طرح معاشرے میں فتنے کا سبب بننے والے ٹی وی اینکرز اور یوٹیوبرز کی نشاندہی فرمائی ہے اس پر اپ داد و تحسین کے مستحق ہیں، ارباب اقتدار کو چاہیے ان ناسوروں کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور جو لوگ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی گستاخیوں کے مرتکب ہیں یا سبب بنتے ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ’’ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ بل‘‘کو نافذ کیاجائے اور ایسے بدباطن اور مفسدین کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے۔
والسلام دعا گو و دعا جو
اورنگزیب فاروقی
صدر اہلسنت والجماعت پاکستان

متعلقہ مضامین

  •  اسلام کبھی ختم نہیں ہوگا، علمائے کرام اور دینی رہنما دین کا جھنڈا لے کر کھڑے ہیں اسے کبھی نہیں گرنے دیں گے، جاوید ہاشمی 
  • صوبہ بچاؤ تحریک کا دائرہ کار پھیلے گا، پی ٹی آئی کی غنڈہ سرکار روک نہیں سکے گی: بلاول
  • مولانا اورنگزیب فاروقی کا خط
  • صوبہ بچاؤ تحریک کا دائرہ کار پھیلے گا، پی ٹی آئی کی غنڈہ سرکار روک نہیں سکے گی، بلاول
  • افواج پاکستان کی جتنی مدد کرسکے کریں گے، یہ صرف افواج کی نہیں پاکستان کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ
  • علیگڑھ میں گائے کا گوشت فروخت کرنے کے شبہ میں مسلم تاجروں پر ہجومی تشدد
  • بھارتی سازشوں کے خلاف قومی یکجہتی کی ضرورت
  • بھارت مسلمانوں کا بھی ہے یہ انکو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سنجے سنگھ
  • دفاعی بجٹ میں اضافے کی ضرورت‘خضدار کے بچوں کونشانہ بنانا انسانیت نہیں: راناثناء