دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
مثال کے طور پر ان علماء کرام نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ایک اسلامی ریاست میں حکومت کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوگی اور منتخب قیادت ہی ملک پر حکمرانی کی اہل ہوگی۔ ہمارے خیال میں یہ اتنا بڑا اجتہادی فیصلہ ہے جسے خلافت عثمانیہ اور مغل حکومت کے صدیوں سے چلے آنے والے خاندانی سیاسی ڈھانچوں کے تناظر میں گزشتہ صدی کے دوران علماء کرام کا سب سے بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات پر غور کر لیا جائے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات میں وحدانی طرز حکومت کو ملک کے لیے موزوں قرار دیا تھا لیکن جب ۷۳ء کے دستور کی تشکیل کے دوران انہوں نے حالات کا تقاضا دیکھا تو وحدانی طرز حکومت کے بجائے وفاقی پارلیمانی نظام کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کوئی سوال اور اشکال کھڑا نہیں کیا بلکہ اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دلواتے ہوئے وفاقی پارلیمانی نظام کو اس کے سسٹم کے طور پر قبول کر لیا۔ اسے اگر اجتہادی عمل تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف ان علماء کرام کے ساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ خود اجتہاد کے مفہوم ومعنی سے بھی ناواقفیت کا اظہار ہوگا۔
تھوڑا سا اور آگے بڑھیں تو ایک اور منظر آپ کے سامنے آپ کی توجہ کا طلب گار ہے اور وہ ۷۳ء کے دستور کے تحت قائم ہونے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ہے جو اس نے ملکی قوانین کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ان میں ضروری ترامیم کے لیے مرتب کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملکی قوانین کا جائزہ لیا ہے، ان پر نظر ثانی کی ہے، قرآن وسنت کے اصولوں کو دیکھا ہے، حالات کے تقاضوں اور ضروریات کو جانچا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر سرکردہ ارباب دانش کی مشاورت سے تمام مروجہ قوانین کے حوالے سے اپنی سفارشات ترتیب دی ہیں۔ میرا ملک بھر کے اہل دانش سے سوال ہے کہ کیا یہ اجتہادی عمل نہیں ہے؟ اس اجتہادی عمل کو تو علماء کرام نے صرف اپنے دائرہ تک محدود رکھنے پر بھی اصرار نہیں کیا۔ اس میں نہ صرف جدید قانون اور دیگر مختلف شعبوں کے ماہرین شامل چلے آ رہے ہیں بلکہ اس کی سربراہی بھی کبھی روایتی حلقہ کے کسی عالم دین کے پاس نہیں رہی۔ اس میں ہر مکتب فکر کے سرکردہ اور معتمد علماء کرام مختلف اوقات میں شریک رہے ہیں۔ علماء کرام نے پوری دل جمعی اور شرح صدر کے ساتھ اس اجتہادی عمل کو آگے بڑھایا ہے اور آج اس کونسل کی سفارشات کو ملک میں بطور قانون نافذ کرانے کے لیے بھی سب سے زیادہ علماء کرام کی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اس لیے یہ کہنا کہ عملی اجتہاد کا دروازہ صدیوں سے مکمل طور پر بند چلا آ رہا ہے اور علماء کرام نے کسی دور میں بھی کسی درجہ کے اجتہاد سے کام نہیں لیا، تاریخی حقائق اور تسلسل کے منافی ہے۔
ہماری ان معروضات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہونا چاہیے تھا اور بدلتے ہوئے حالات جن امور کا تقاضا کرتے ہیں، وہ سب کچھ ہو رہا ہے اور علماء کرام اور دینی حلقے ہر قسم کے اعتراض اور سوال سے بری الذمہ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور خود ہمیں اس سلسلے میں بہت سے اشکالات ہیں جن کا تذکرہ ہم اس کے بعد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے قبل اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی طبقہ کے کردار کی کلی نفی کرتے ہوئے اگر آپ اس سے اپنی شکایات پر بات کرنا چاہیں گے تو آپ کی جائز شکایات بھی قابل توجہ نہیں سمجھی جائیں گی۔ اس لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جتنا کام ہو رہا ہے، اس کا اعتراف کیا جائے اور کام کرنے والوں کو اس کا کریڈٹ دیا جائے۔ اس کے بعد جو کام نہیں ہو رہا، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کی طرف توجہ دلائی جائے اور اسے رو بہ عمل لانے کے لیے قابل قبول تجاویز دی جائیں۔
۴- دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو۔
اس کے بعد ہم ان ضروریات اور تقاضوں کی طرف آتے ہیں جو آج کے روز افزوں تغیر پذیر حالات میں اجتہاد کے حوالے سے علماء کرام اور دینی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمارے علمی مراکز اور دینی ادارے اپنی ترجیحات اور دائرہ کار سے ہٹ کر کوئی بات سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مراکز اور علمی اداروں نے اپنی علمی سرگرمیوں کو روز مرہ ضروریات کے دائرے میں محدود کر رکھا ہے اور وہ بھی اپنے الگ الگ ماحول میں جس سے ان کے کام کی افادیت اور تاثیر یقیناًمجروح ہو رہی ہے۔ انہیں جس بات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور جس کے لیے ان پر دباؤ ہوتا ہے، اس کے لیے وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں لیکن خود اپنی ذمہ داری پر ملی ضروریات کا جائزہ لینے اور امکانات کی بنیاد پر مسائل کے تعین اور ان کے حل کا کوئی نظام کسی مکتب فکر کے کسی علمی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’فقہ تقدیری‘‘کا وہ عظیم الشان علمی کام جو کسی دور میں ہمارے فقہا اور ائمہ کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا، وہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملی ضروریات کے حوالے سے اجتماعی علمی کاوش پرائیویٹ سیکٹر میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات کے بعد اب تک تعطل کا شکار ہے اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سرکاری فورم پر دینی وملی مقاصد کے لیے مشترکہ علمی خدمات سرانجام دینے والے علماء کرام کو غیر سرکاری سطح پر انہی مقاصد کے لیے مل بیٹھنے اور دینی وعلمی مسائل مشترکہ طور پر طے کرنے میں حجاب کیوں ہے؟
قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کی ضرورت جس طرح سلطان اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی تھی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالم گیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی ہجری میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس وقت کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہیں تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ آج کوئی اورنگ زیب عالم گیرؒ طرز کا مسلم حکمران موجود نہیں جو نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اس لیے یہ دینی اداروں اور علمی مراکز کے ذمہ امت کا قرض ہے کہ وہ کوئی ایسا اجتماعی نظام وضع کریں کہ قدیم فقہی ذخیرہ پر موجودہ حالات کی روشنی میں نظر ثانی کر کے عرف وعادات، تعامل اور دیگر احوال وظروف کے تغیر کی وجہ سے جن مسائل کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے، اسے سرانجام دینے کی کوئی معقول اور قابل قبول صورت نکل آئے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علماء کرام نے اجتہادی عمل اور دینی نہیں ہے کے بعد کے لیے کی طرف ہے اور
پڑھیں:
ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پیش آئی تو ایران کے جوہری مراکز پر دوبارہ حملہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ وارننگ انہوں نے پیر کی شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پوسٹ میں دی۔
یہ بھی پڑھیں:ایران ایٹمی معاہدہ: امریکا اور یورپ کا آئندہ ماہ کی آخری تاریخ پر اتفاق
ٹرمپ کا بیان ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے اس انٹرویو کے ردعمل میں آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ایران یورینیم کی افزودگی سے دستبردار نہیں ہوگا، اگرچہ گزشتہ ماہ امریکی بمباری سے جوہری پروگرام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’جی ہاں، جیسا کہ میں نے کہا تھا، انہیں شدید نقصان پہنچا ہے، اور اگر ضرورت ہوئی تو ہم دوبارہ ایسا کریں گے‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ22 جون کو امریکی فضائی حملوں میں ایران کے 3 اہم افزودگی مراکز فردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا گیا تھا، یہ کارروائی اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ تنازع کے دوران کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ایران کو دبانے کی کوشش، ڈونلڈ ٹرمپ کی خطرناک چال
اگرچہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کے جوہری مراکز مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں، تاہم بعد ازاں ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی پروگرام کو صرف چند ماہ کے لیے مؤخر کیا جا سکا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس رپورٹ کو قطعی طور پر غلط قرار دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ایٹمی تنصیاب ایران ٹرمپ سوشل ٹرتھ