موٹاپے سے ملکی معیشت کو سالانہ 950 ارب کا نقصان؟؟؟ ماہرین کاچونکا دینے والا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
موٹاپے سے ملکی معیشت کو سالانہ 950 ارب روپے کا نقصان ہونے لگا اور ماہرین نے فوری اقدامات نہ ہونے کی صورت میں 2030 تک معاشی نقصان 2.13 کھرب پہنچنے کا خدشہ ظاہر کردیا۔
ماہرین صحت نے انکشاف کیا کہ موٹاپا پاکستان کی معیشت پر خاموشی سے ایک تباہ کن بوجھ بنتا جا رہا ہے جو فی الوقت سالانہ تین ارب اکتالیس کروڑ ڈالر یعنی 950 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچا رہا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک یہ بوجھ بڑھ کر 7.
ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ موٹاپا صرف انفرادی صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی صحت ایمرجنسی اور معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، موٹاپے سے متعلقہ پیچیدگیوں کی وجہ سے سرکاری و نجی شعبے میں علاج معالجے پر بڑھتا ہوا خرچ، ملازمتوں سے غیر حاضری، کام کی پیداوار میں کمی اور وقت سے پہلے اموات معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق موٹاپے کے باعث پاکستان میں ذیابیطیس، ہائی بلڈ پریشر، دل کے امراض، جگر میں چربی جمع ہونے اور گردوں کی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان امراض کا براہ راست تعلق موٹاپے سے ہے اور یہ بیماریاں قومی وسائل کو چاٹ رہی ہیں۔
معروف معالج پروفیسر رؤف نیازی کے مطابق 70 سے 80 فیصد پاکستانی افراد بشمول بچے اب زائد الوزن یا موٹاپے کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور خوراک، جنک فوڈ، میٹھے مشروبات اور بیٹھے بیٹھے گزارا جانے والا طرز زندگی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ موٹاپا مردوں میں نامردی اور خواتین میں بانجھ پن جیسے مسائل کا سبب بن رہا ہے جبکہ یہ ذیابیطیس، فالج، دل کے دورے اور گردوں کو نقصان پہنچانے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔
پروفیسر نیازی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی 85 فیصد آبادی فیٹی لیور جیسے خطرناک مرض کا شکار ہو سکتی ہے جو بظاہر خاموش رہتا ہے لیکن کولیسٹرول میٹابولزم، جسمانی سوزش اور دل کی بیماریوں کو بڑھا دیتا ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ سادہ طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت سے ملتا ہے جنہوں نے متوازن خوراک، باقاعدہ چہل قدمی، تیراکی اور جسمانی مشقت کو زندگی کا حصہ بنایا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے وابستہ ماہر ڈاکٹر ممتاز علی خان کے مطابق موٹاپے اور غیر صحت بخش عادات کی وجہ سے پاکستانی قوم عمر سے پہلے بوڑھی ہو رہی ہے۔
بطور ماہر امراض اطفال انہوں نے بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر شدید تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اس کی بڑی وجوہات میں اسکرین ایڈکشن، جنک فوڈ اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی شامل ہیں، والدین اکثر موٹے بچوں کو صحت مند سمجھتے ہیں جو کہ ایک خطرناک سوچ ہے۔
پمز اسلام آباد سے وابستہ ڈاکٹر محمد علی عارف نے کہا کہ سفید چینی، بیکری اشیا، میٹھے مشروبات اور پراسیسڈ خوراک پر بھاری ٹیکس عائد کیے جانے چاہیئیں کیونکہ یہ خوراک کی بنیادی ضرورت نہیں بلکہ مہلک عادت بن چکی ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: موٹاپے سے
پڑھیں:
عید قرباں: پاکستان کی معیشت کو کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
عید قرباں نہ صرف مسلمانوں کا بڑا مذہبی تہوار ہے بلکہ یہ کسی بھی ملک کی معیشت میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ عید قرباں کی آمد پر چھریاں اور ٹوکے فروخت کرنے والوں، قصائیوں، چمڑے اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کو بھی روزگار کے بہترین مواقع فراہم ملتے ہیں۔
یہ مذہبی تہوار عوام کے روزگار اور پاکستانی معیشت کے لیے کس قدر بہترین موقع ہوتا ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا ہے کہ عیدالاضحیٰ نہ صرف مذہبی اہمیت کی حامل ہے بلکہ یہ ایک بڑی معاشی سرگرمی بھی بن چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں عیدالاضحیٰ 2025 کب ہوگی؟ سپارکو نے پیشگوئی کردی
انہوں نے کہا کہ اس موقعے پر موشیوں کی خریدوفروخت زوروں پر ہوتی ہے جس کے لیے شہروں میں خصوصی مویشی منڈیاں قائم کی جاتی ہیں جہاں ماضی میں ہر شہر میں صرف ایک منڈی لگا کرتی تھی، اب تقریباً ہر علاقے میں منڈیاں لگائی جاتی ہیں جس سے یہ سرگرمی مزید وسعت اختیار کر چکی ہے۔
اس عمل کے دوران پیسہ شہروں سے دیہی علاقوں کی جانب منتقل ہوتا ہے جو کہ ایک منفرد معاشی رجحان ہے کیونکہ عمومی طور پر اشیا دیہات سے شہروں کی جانب آتی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے بعد ان کے ذبیحے ک لیے عارضی روزگار پیدا ہوتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ قصائی، مددگار اور صفائی کے شعبے میں کام کرتے ہیں جس سے قلیل مدتی روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔
قربانی کے جانوروں سے حاصل شدہ فضلہ بھی مختلف طریقوں سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: عیدالاضحیٰ پر مسافروں سے زیادہ کرایہ وصول کرنے والوں کے خلاف مہم کا آغاز
سب سے اہم پہلو چمڑے کی صنعت کا ہے جسے عید کے موقعے پر سب سے زیادہ خام مال دستیاب ہوتا ہے۔ پاکستان کی چمڑے کی صنعت ایک وقت بحران کا شکار رہی، خاص طور پر جب چینی لیدر کی درآمدات نے مقامی مارکیٹ کو متاثر کیا۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہ صنعت بتدریج بحالی کی جانب گامزن ہے اور دنیا بھر میں اصلی چمڑے کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کی چمڑے کی صنعت نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ ایکسپورٹ کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ ہر سال تقریباً 5 ارب روپے مالیت کی کھالیں جمع کی جاتی ہیں جن میں سے ایک بڑی مقدار برآمد کی جاتی ہے جبکہ باقی کھالیں مقامی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کھالوں سے جوتے، بیگ، جیکٹس، گاڑیوں کے سیٹ کورز اور دیگر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملکی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 18.5 فیصد ہے جس میں سے 60.5 فیصد حصہ لائیو اسٹاک کا بنتا ہے۔ 38.5 لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ گزشتہ مالی سال میں لائیو اسٹاک کی مجموعی مالیت 1384 ارب روپے تھی جو 2018-19 میں بڑھ کر 1440 ارب روپے ہو گئی۔
قائداعظم یونیورسٹی کے اسکول آف فنانس اینڈ اکنامکس کے پروفیسر، ڈاکٹر انور شاہ کے مطابق عیدِ قرباں کے موقع پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ امریکا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم پاکستانی قربانی کے لیے رقم پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ اس کا فائدہ یہاں کے مستحق اور پسماندہ طبقوں کو پہنچ سکے۔
وہ یہ رقم نہ صرف اپنے اہلِ خانہ اور رشتہ داروں کو بھیجتے ہیں بلکہ مختلف فلاحی اداروں کو بھی دیتے ہیں جو ضرورت مندوں تک قربانی کا گوشت پہنچانے کی ذمے داری ادا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر انور شاہ کا مزید کہنا تھا کہ عموماً ہر خاندان میں ایک فرد قربانی کرتا ہے۔ اگر ہم ملک کی مجموعی آبادی کو اوسط خاندانی سائز پر تقسیم کریں تو ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تقریباً کتنے افراد قربانی کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر ہم معیشت پر قربانی کے مثبت اثرات اور مجموعی فائدے کا بھی تخمینہ لگا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کی فلم ‘لَو گورو’ کا ٹریلر جاری
انہوں نے بتایا کہ سنہ 2024 کے رجحانات کو دیکھیں تو سال 2025 میں بھی قربانی کے جانوروں کی تعداد میں اضافہ یا کم از کم گزشتہ سال کے برابر ہی رہنے کا امکان ہے۔ سنہ 2024 میں تقریباً 6.8 ملین جانور قربان کیے گئے تھے اور چونکہ معاشی حالات مستحکم ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ تعداد 2025 میں بھی اضافہ ممکن ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ پر 200 سے 300 ارب روپے تک کی رقم ہر سال شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عید قرباں عیدالاضحیٰ عیدالاضحیٰ اور کاروبار عیدالضحیٰ اور ملکی معیشت