بنگلادیشی سپریم کورٹ؛ رہنما جماعت اسلامی کی سزائے موت کالعدم قرار دیکر رہائی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی کے رہنما اظہر الاسلام کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیکر فوری رہائی کا حکم دیدیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلا دیش کی سپریم کورٹ نے جماعتِ اسلامی کے سینئر رہنما اظہر الاسلام کو 1971 کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات سے بری کردیا۔
خیال رہے کہ اظہر الاسلام 2012 سے زیرِ حراست تھے جب کہ انہیں سزائے موت 2014 میں سنائی گئی تھی۔
یہ کیس سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے دور میں ایک بہت اہم اور حساس کیس سمجھا جاتا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اس ہائی پروفائل کیس کا رخ یکسر بدل دیا۔
یاد رہے کہ بنگلادیش میں طویل طلبا تحریک کے نتیجے میں گزشتہ برس اگست میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے 15 سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
جس پر حسینہ واجد حکومت چھوڑ چھاڑ کر خصوصی طیارے میں بھارت فرار ہوگئی تھیں اور تاحال وہی مقیم ہیں۔
حسینہ واجد کے فرار کے بعد سے جیل میں قید سیاسی قیدیوں کے خلاف مقدمات کو دوبارہ چلایا جا رہا ہے۔
اظہرالاسلام ان چھ سینیئر سیاسی رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں حسینہ واجد کے دور میں جنگی جرائم کے مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی۔
اس فیصلے کے بعد اب دیگر سابقہ مقدمات اور سزاؤں پر بھی نظرِ ثانی کا امکان بڑھ گیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حسینہ واجد سپریم کورٹ
پڑھیں:
کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ گورنر ہائوس سندھ اور اسپیکر سندھ اسمبلی کے درمیان اختیارات اور رسائی کے تنازع نے بالآخر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔
موجودہ گورنر کامران ٹیسوری نے سندھ ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ چیلنج کر دیا ہے جس میں عدالت نے قائم مقام گورنر کو گورنر ہائوس کی مکمل رسائی دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے مطابق، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ اس مقدمے کی پیر 3 نومبر کو سماعت کرے گا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا تھا کہ قائم مقام گورنر کو آئینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے گورنر ہاو ¿س کے تمام حصوں تک بلا تعطل رسائی ہونی چاہیے۔
تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ فیصلہ آئینی اختیارات اور انتظامی دائرہ کار سے تجاوز کے مترادف ہے، لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی و قانونی حلقوں کی نظر اب سپریم کورٹ کی سماعت پر مرکوز ہے، جو اس اختیاراتی تنازع کے مستقبل کا تعین کرے گی۔