ہزاروں ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
مصنوعی ذہانت (اے آئی) ملازمین کی نوکریوں کے پیچھے پڑ گئی، ایک معروف ٹیکنالوجی کمپنی سے ہزاروں ملازمین کو نکال دیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبول عالمی ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم نے مصنوعی ذہانت کے باعث 8 ہزار ملازمین کو فارغ کر دیا جس سے سب سے زیادہ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ متاثر ہوا۔
یہ اقدام کمپنی کی جانب سے مصنوعی ذہانت (AI) پر انحصار بڑھانے اور خودکار نظام اپنانے کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اے آئی نے ابتدائی طور پر ایچ آر کے 200 عہدوں کی جگہ لے لی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اے آئی کے نظام کو اس طرح سے پروگرام کیا گیا ہے کہ وہ معلومات کی ترتیب، ملازمین کی رہنمائی اور دیگر انتظامی امور خودکار طریقے سے انجام دے سکیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی بی ایم کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اروند کرشنا نے کہا ہے کہ اے آئی اور آٹومیشن کی مدد سے کمپنی کے اندرونی نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ اس سے حاصل ہونے والی بچت کو دیگر اہم شعبوں جیسے کہ سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، مارکیٹنگ اور سیلز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
’اوپن اے آئی‘ کے اے آئی ماڈل نے انسانوں سے بغاوت کردی، حکم ماننے سے انکار
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اندرونی نظام میں اے آئی اور آٹومیشن کے ذریعے قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔
کمپنی کی چیف ہیومن ریسورس آفیسر نکل لاموریو کے مطابق اے آئی کے استعمال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔
آئی بی ایم کے علاوہ دنیا کی کئی دیگر بڑی کمپنیاں بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔