صحت اور تعلیم سمیت ہر شعبہ موسمیاتی لحاظ سے محفوظ ہونا چاہیے، احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں انفرا اسٹرکچر کا تصور صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں رہا بلکہ اب یہ عوامی صحت، ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی آفات سے تحفظ سے بھی جڑا ہوا ہے لہٰذا صحت اور تعلیم سمیت ہر شعبہ موسمیاتی لحاظ سے محفوظ ہونا چاہیے۔
اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی ) اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے اشتراک سے منعقدہ تقریب میں اے آئی آئی بی کی سالانہ رپورٹ "ایشیائی انفرا اسٹرکچر فنانس 2025: محفوظ صحت کے لیے انفرا اسٹرکچر” جاری کی گئی۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تقریب میں کہا کہ اب ہر شعبہ خواہ وہ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ یا توانائی کا ہو موسمیاتی لحاظ سے محفوظ اور مربوط ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت "اُڑان پاکستان” منصوبے کے تحت فضائی آلودگی سے پاک ماحول کے لیے الیکٹرک بسوں کے فروغ ، سیم زدہ زمینوں کی بحالی اور محفوظ صحت مراکز کے قیام کے لیے کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات نہ صرف پائیدار ترقی کو فروغ دیں گے بلکہ عوامی صحت کے تحفظ میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ حکومت فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے شمسی توانائی سمیت متبادل توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ساحلی مینگرووز کی بحالی سے طوفانی نقصانات میں 30 سے 50 فیصد تک کمی آ رہی ہے اور مقامی ماہی گیروں کے روزگار میں بہتری آ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ماضی کے مقابلے میں معیار، استحکام اور صحت کو ترجیح دی جا رہی ہے اور پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جو موسمیاتی آگاہی اور انسانی فلاح پر مبنی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی بھی انفرا اسٹرکچر منصوبہ اُس وقت تک آگے نہیں بڑھتا جس میں موسمیاتی استحکام، عوامی صحت اور ماحولیاتی تحفظ کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان قدرت پر مبنی حل اپنا رہا ہے، جن میں ساحلی علاقوں میں مینگرووز کی شجرکاری اور شہروں میں سبز پارکوں کا قیام شامل ہے جو سب کے لیے مساوی فوائد کے حامل ہیں۔
احسن اقبال نے اے آئی آئی بی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں پیش کردہ ڈیٹا پاکستان کے زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے، سیلاب اور ناقص واٹر سسٹمز کی وجہ سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بارشوں کے غیر یقینی نظام سے غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے اور اس کے اثرات بچوں کی صحت اور ذہنی نشوونما پر بھی ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب، شدید گرمی، اسموگ اور پانی کی قلت جیسے مسائل موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں لیکن حکومت ان مسائل کا حل تلاش کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انفرا اسٹرکچر احسن اقبال نے نے کہا کہ انہوں نے صحت اور کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
پختونخوا حکومت کا گڈگورننس روڈمیپ جاری؛ صحت و تعلیم سمیت 12 شعبوں میں بڑے اہداف مقرر
پشاور:وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور کی قیادت میں صوبائی حکومت نے گڈ گورننس، اسمارٹ ڈیویلپمنٹ اور مضبوط سکیورٹی پر مشتمل ایک جامع روڈ میپ کا باضابطہ اجرا کر دیا ہے۔
روڈ میپ کو ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جو آئندہ 2 برس کے دوران ٹھوس اصلاحات، مؤثر سروس ڈیلیوری اور عوامی توقعات کے مطابق گورننس ماڈل کی تشکیل کے لیے ایک مشترکہ فریم ورک کے طور پر کام کرے گا۔
وزیراعلیٰ کی زیر قیادت جاری کردہ اس پلان میں 12 ذیلی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں صحت، تعلیم، اربن و رورل ڈویلپمنٹ، معیشت، سماجی تحفظ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ایز آف ڈوئنگ بزنس، ڈیجیٹل سروسز، قانونی ڈھانچہ، گورننس کلینڈر، میرٹ پر مبنی تقرریاں اور پسماندہ علاقوں میں روزگار کی فراہمی شامل ہیں۔
روڈ میپ کے تحت سکیورٹی کے شعبے کو مستحکم بنانے کے لیے پراوِنشل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیا جائے گا، جب کہ اسمارٹ ڈیویلپمنٹ کے دائرہ کار میں میگا پراجیکٹس کی بروقت تکمیل، سرمایہ کاری کے فروغ اور اہم عوامی منصوبوں کے لیے فنڈز کی ترجیحی فراہمی شامل ہے۔
اہم اہداف:
صحت کے شعبے میں 250 بنیادی و دیہی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا جائے گا، ہر وقت زچگی خدمات کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی، 100 سے زائد اسپتالوں کو جدید طبی سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا اور جنوبی اضلاع میں پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ہر بچے تک رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی اور 1500 کمزور کارکردگی والے اسکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا ہدف شامل ہے۔ سماجی تحفظ کے شعبے میں 10 ہزار خصوصی افراد کو وظائف اور آلات دیے جائیں گے، جبکہ ڈیجیٹل ویلفیئر رجسٹری بھی قائم کی جائے گی۔ معیشت میں 3 نئے اکنامک زونز مکمل کیے جائیں گے، 32 فنی تربیتی اداروں کی اپ گریڈیشن، 751 ایکڑ پر ڈیری فارم کی تعمیر، سالانہ ایک کروڑ مچھلیوں کی افزائش اور زراعت میں پھل دار باغات و 20 لاکھ جنگلی زیتون کے پودوں کی قلم کاری شامل ہے۔ انفرا اسٹرکچر میں ڈی آئی خان تا پشاور موٹر وے پر کام کا آغاز، پشاور نیو جنرل بس اسٹینڈ کی تکمیل اور چھوٹے پیمانے کی کان کنی کے لیے 4 منرل زونز قائم کیے جائیں گے۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں نیو پشاور ویلی میں 14 ہزار پلاٹس تیار ہوں گے اور 1.3 لاکھ گھرانوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ سیاحت میں 50 نئے سیاحتی مراکز کی ترقی، 7 اضلاع میں ہوم اسٹے پروگرام کا آغاز اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ڈیجیٹائزیشن کے تحت ’’دستک پورٹل‘‘سے 100 سے زائد سرکاری خدمات آن لائن فراہم ہوں گی، سرکاری اداروں میں ڈیجیٹل نظام کا نفاذ کیا جائے گا۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں افسران کے تبادلے کی نئی پالیسی، میرٹ پر مبنی جزا و سزا کے نظام کے لیے پرفارمنس ڈیش بورڈ کا استعمال شامل ہے۔ان اہداف کے لیے تمام محکموں نے اپنے ایکشن پلانز تیار کر لیے ہیں۔ عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لیے چیف سیکرٹری آفس اور پرفارمنس منیجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ ذمہ دار ہوں گے، جو جیو ٹیگنگ، ڈیش بورڈز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے مسلسل نگرانی کریں گے۔
وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں سہ ماہی بنیاد پر اجلاس منعقد کیے جائیں گے تاکہ پیشرفت کا جائزہ لیا جا سکے اور درپیش رکاوٹوں کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔یہ گڈ گورننس روڈ میپ خیبرپختونخوا کو مؤثر انتظام، بہتر خدمات اور عوامی خوشحالی کی نئی سمت دینے کے لیے حکومت کا ایک مربوط اور دوررس اقدام ہے۔