معرکہ حق میں پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے، حنیف عباسی کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 مئی 2025ء ) وفاقی وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ معرکہ حق کے دوران پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے۔ راولپنڈی میں یومِ تکبیر کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ پاکستان نے ناصرف دشمن کے 6 جنگی طیارے گرائے بلکہ اس کے ساتھ ایک ہزار بھارتی فوجی بھی ہلاک کیے، جس کے بعد بھارت اب دوبارہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
حنیف عباسی کہتے ہیں کہ بھارت نے جب پاکستان پر جنگ مسلط کی تو معصوم بچوں کو بھی شہید کیا گیا لیکن بھارت نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر بہت بڑی غلطی کردی، جس کے بعد پاک فضائیہ نے مودی کی غلط فہمی کو رافیل طیارے گرا کر دور کر دیا، اس کامیابی کے بعد پاکستان ایک مضبوط ایٹمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے اور دشمن کو ہماری طاقت کا بھرپور اندازہ ہو چکا ہے۔(جاری ہے)
اس موقع پر پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ 1998 میں عالمی دباؤ، معاشی دھمکیاں اور سیاسی دباؤ سمیت سب کچھ میاں محمد نواز شریف کے سامنے رکھا گیا لیکن وہ جھکے نہیں، دشمن کے ایٹمی تکبر کا جواب پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی صورت میں دیا اور یوں ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا، نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کرکے قوم کے خواب کو حقیقت میں بدلا، پاک افواج نے حالیہ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور پلوامہ واقعے پر بھارت کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے ایک اور رہنما دانیال چوہدری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن ہمارے لیے فخر، اتحاد اور ثابت قدمی کی علامت ہے، یومِ تکبیر پر پاکستانی سائنسدانوں کو سلام پیش کرتے ہیں کیوں کہ یہ دن پاکستان کی سیاسی، سائنسی اور عسکری قیادت کے پختہ عزم کا مظہر ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
بھارت میں مذہبی پابندیاں
ریاض احمدچودھری
امریکی حکومت کے پینل نے بھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے اسے مذہبی اعتبار سے تشویشناک ترین ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ رواں سال ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بھارت بھر میں متعدد افراد قتل کیے گیے، لاتعداد مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور اقلیتی افراد کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔ بھارتی حکام کی نفرت انگیز تقاریر پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور انہیں مذہبی اور سماجی حقوق سے محروم کرنے کے لیے بھارتی قانونی فریم ورک میں تبدیلیوں اور نفاذ کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی امریکی حکومت کے پینل نے مذہبی آزادی کے حوالے سے بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکمرانی میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی میں مزید بدتر ہوگئی ہے۔امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے تجاویز دی تھیں لیکن پالیسی نہیں بنائی اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھارت سے متعلق ان کے مؤقف کی تائید کریگا کیونکہ وہ امریکا کا ابھرتا ہوا شراکت دار ہے۔امریکا کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ہرسال ان ممالک کی فہرست جاری کرتا ہے جس میں مذہبی آزادی پر بہتری نہ ہونے پر پابندیوں کے امکان کے ساتھ مخصوص تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔سالانہ رپورٹ میں نشان دہی کی گئی کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اس حوالے سے مودی کی بھارتی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے بیانات کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
امریکی کمیشن کے سامنے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی، مذہبی عدم برداشت، اقلیتوں پر ظلم و جبر، میڈیا و انٹرنیٹ پر پابندی، جنسی تجارت اور انسانی حقوق سے متعلقہ دیگر سنگین خلاف ورزیوں پر شہادت دی۔کمیشن کو بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر مسائل کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتی سیکولر جمہوریت سے تبدیل کرکے اسے ہندوتوا بنانے کی کوشش ہے۔ اگر انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے مسائل کا حل نہ کیا گیا تو بھارت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 13 ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ متعدد رپورٹس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹس سے واضح ہے کہ بھارت میں مسلمان اور مسیحی کمیونٹی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں مودی حکومت کی زیر قیادت مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ پالیسیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی،تازہ واقعہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع شراوستی میں پیش آیا، جہاں ایک 65 سالہ قدیم مدرسہ بغیر کسی قانونی کارروائی اور عدالتی منظوری کے زمین بوس کر دیا گیا۔
مودی سرکار نے وقف بل کے ذریعے پہلے بھی مسلمانوں کی مقدس املاک پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کی،یو پی مدرسہ بورڈ پر مدرسوں کو غیر قانونی قرار دینے کا دباؤ۔ مودی سرکار مدارس کی رجسٹریشن کے لیے شفاف نظام بنانے کی بجائے، مذہبی مقامات کو گرا رہی ہے۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق الہٰ آباد ہائیکورٹ نے یوپی حکام کو شراوستی میں مدارس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا حکم نہ دیا،عدالتی حکم کے باوجود یوپی انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدارس کو روند ڈالا۔دکن ہیرالڈ کے مطابق شراوستی میں اب تک 28 مدرسے، 9 مساجد، 6 مزارات اور ایک عیدگاہ شہید، جو مسلم تشخص کو مٹانے کی ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔مودی کی مسلم مخالف مہم بھارت میں اقلیتوں کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکی ہے۔مودی سرکار کے 11 سالہ دور میں بھارت کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں پر انتہا پسند ہندوؤں کے حملے معمول بن چکے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت ہندو انتہاء پسندوں کو کھلی چھوٹ دے کر اقلیتوں کی جان و مال اور مذہبی عبادات کو شدید خطرے میں ڈال چکی ہے۔خصوصاً بھارتی ریاست اڑیسہ میں عیسائی برادری پر انتہا پسند ہندوؤں کے مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی تجزیہ کار ڈاکٹر اشوک سوائن نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور حکومتی ادارے صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اقلیتوں کو انصاف سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
نیوز ریل ایشیا کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، اڑیسہ کے اضلاع نابرانگپور، گجپتی اور بالاسور میں مارچ سے اپریل 2025 کے دوران عیسائی برادری کے خلاف متعدد سنگین واقعات پیش آئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عیسائیوں کو اپنے مرحومین کی تدفین سے روک دیا گیا، ان کے گھروں پر حملے کیے گئے، اور خواتین و بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔خصوصی طور پر نابرانگپور میں عیسائی نوجوان کی تدفین کے بعد لاش کی چوری اور اس کے اہل خانہ پر تشدد کے واقعات سامنے آئے، جبکہ گجپتی میں چرچ پر پولیس کے حملے اور مذہبی علامات کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ قبائلی عیسائیوں کو بائیکاٹ اور دھمکیوں کا سامنا ہے اور پولیس ملوث ہو کر ان مظالم میں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔
بھارتی جریدے کرسچینٹی ٹوڈے نے بھی ان واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ریاست اڑیسہ فرقہ وارانہ تشدد کے دہانے پر ہے، جہاں قانون ہندو انتہاپسندوں کا محافظ بن چکا ہے۔ تین نسلوں سے مسیحی برادری کو "غیر روایتی” قرار دے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور مقامی میڈیا نے بھی اقلیتوں کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی خبریں شائع کی ہیں۔مجموعی طور پر، مودی سرکار کے دور میں بھارت کی اقلیتیں شدید جبر، ظلم اور مذہبی آزادی کے حوالے سے سنگین خطرات کا سامنا کر رہی ہیں، جبکہ حکومت اپنی جھوٹی تشہیر میں مصروف ہے اور انصاف کے راستے مکمل بند کر دیے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔