این اے 251 کی ری کاؤنٹنگ کا عمل فوری روکا جائے، جے یو آئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے یو آئی رہنماؤں نے کہا کہ این اے 251 کے 22 پولنگ اسٹیشنز میں سے 8 پولنگ اسٹیشنز کی گنتی کے نتائج کو مسترد، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ متنازعہ فیصلے کو ختم کرکے گنتی کے عمل کو منسوخ کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے نائب امیر مولانا محمد سرور ندیم اور کوئٹہ کے امیر حافظ حسین احمد شرودی نے کہا ہے کہ این اے 251 ژوب کم شیرانی، قلعہ سیف اللہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر دوبارہ گنتی الیکشن ٹریبونل کے 8 فروری 2024ء کی دھاندلی زدہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ دوبارہ گنتی کے عمل کو مسترد کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مخالف امیدوار نے ابتداء میں ری کاؤنٹنگ کیلئے ٹریبونل میں درخواست دائر کرکے بعد میں واپس لے لیا تھا۔ اس کے باوجود ٹریبونل نے سوموٹو اختیار استعمال کرتے ہوئے 22 پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ری کاؤنٹنگ کا حکم دیا، قانوناً ٹریبونل کو سوموٹو لینے کا اختیار نہیں ہے۔ سوموٹو کا حق صرف سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آر او نے دوبارہ گنتی کیلئے جو بیلٹ بیگز فریقین کے نمائندوں کے سامنے پیش کئے، وہ تمام بیگز بغیر سیل کے پائے گئے۔ یعنی وہ پہلے سے کھلے ہوئے تھے۔ اس لئے ہم اب تک ہونے والے 22 پولنگ اسٹیشنز میں سے 8 پولنگ اسٹیشنز کی گنتی کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ متنازعہ فیصلے کو ختم کرکے گنتی کے عمل کو منسوخ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 2024ء کے انتخابات میں زورآور قوتوں نے جمعیت علماء اسلام کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدلنے کا جو طریقہ اختیار کیا، وہ بدستور جاری ہے۔ اس سے قبل ضمنی الیکشن پی بی 7 زیارت، پی بی 45 سریاب، حلقہ پی بی 36 قلات میں ریکارڈ دھاندلی کی گئی اور حلقہ پی بی 36 قلات کا الیکشن عدالتی فیصلہ آنے کے باوجود گزشتہ ایک سال سے التواء کا شکار ہے، کیونکہ وہاں جمعیت کو برتری حاصل ہے، اس وجہ سے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پولنگ اسٹیشنز نے کہا کہ کرتے ہیں انہوں نے گنتی کے
پڑھیں:
صدر زرداری کو علاج کیلئے دبئی جانے سے کیوں روکا گیا تھا؟ فرحت اللہ بابر کی کتاب میں انکشافات
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )صدر آصف علی زرداری کی پہلی مدت صدارت کے دوران ان کے ترجمان رہنے والے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب ”دی زرداری پریذیڈنسی“ میں انکشاف کیا ہے کہ اکتوبر 2011 میں جب میموگیٹ سکینڈل سامنے آیا اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تو صدر آصف علی زرداری شدید ذہنی دباﺅ میں تھے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق انہوں نے بھری بندوق سے لیس ہوکر علاج کیلئے دبئی جانے کی کوشش کی تاہم انہیں روانہ ہونے سے روک دیا گیا۔صدر زرداری کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی ا±س وقت آذربائیجان میں موجود ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم حسین کو فوراً طلب کیا گیا۔
صدر مملکت کو دماغی ایم آر آئی سمیت فوری طبی امداد کی ضرورت تھی، انہوں نے آرمی ہسپتال میں معائنے سے انکار کر دیا، ان کے پاس دو راستے رہ گئے: کراچی یا دبئی۔ اپنے بیٹے بلاول سے نجی ملاقات کے بعد صدر زرداری نے فیصلہ ان پر چھوڑ دیا۔
بلاول نے دبئی میں علاج کا انتخاب کیا تاہم ڈاکٹرز نے زرداری کی حالت کے پیش نظر فضائی سفر نہ کرنے کا سختی سے مشورہ دیا جبکہ ڈاکٹر عاصم نے اصرار کیا کہ صدر مملکت کو صرف کراچی میں ان کے نجی ہسپتال منتقل کیا جانا چاہئے، کہیں اور نہیں۔
دبئی کے سفر کی تیاریاں جاری تھیں کہ ایک اور پیچیدگی پیدا ہوگئی، صدر زرداری سفیر حسین حقانی کو پاکستان میں چھوڑ کر نہ جانے پر بضد تھے، انہیں ڈر تھا کہ حسین حقانی فوج کے دباﺅ کا شکار ہو جائیں گے اور ممکنہ طور پر اس سکینڈل میں ان کیخلاف کہیں سلطانی گواہ نہ بنا دیے جائیں۔
صدر زرداری کا خیال تھا کہ میمو گیٹ سکینڈل بنیادی ہدف حسین حقانی نہیں بلکہ وہ خود تھے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خبردار کیا کہ اگر حسین حقانی ملک چھوڑ کر چلے گئے تو اخباروں میں یہ شہ سرخیاں چھپیں گی کہ صدر زرداری اور سفیر حسین حقانی ملک سے فرار ہوگئے۔
اس صورتحال کے نتیجے میں عدلیہ، سیاسی جماعتوں اور فوج کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آسکتا ہے۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق گیلانی نے متنبہ کیا کہ اگر حسین حقانی ملک سے چلے گئے تو حکومت ایک دن بھی برقرار نہیں رہ پائے گی،گیلانی نے پاکستان میں زرداری کے میڈیکل ٹیسٹ کرانے کی بھی مخالفت کی، انہیں خدشہ تھا کہ میڈیا اور عدالتوں میں ٹیسٹس کے نتائج کو صحت کی بنیاد پر نااہل قرار دینے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال صدر زرداری کو حسین حقانی کے بغیر سفر کرنے پر آمادہ کرنا ایک چیلنج رہا، بالخصوص اس وقت جب حسین حقانی کا نام چیف جسٹس افتخار چودھری کے ماتحت سپریم کورٹ کے حکم سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا گیا تھا۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق کسی نے صدر مملکت کو بے ہوش کرنے اور حسین حقانی کے بغیر ہیلی کاپٹر تک لیجانے کا مشورہ بھی دیا تھا تاہم اس خیال پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا، ہیلی کاپٹر کی روانگی میں گھنٹوں تاخیر ہوئی کیونکہ صدر زرداری نے حقانی کے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
وزیراعظم گیلانی نے زرداری کو یقین دلایا کہ حقانی کو وزیراعظم ہاﺅس میں محفوظ رکھا جائے گا لیکن زرداری پرعزم رہے۔ جب صدر زرداری اور حقانی آخر کار ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے تو پائلٹ نے دبئی سے لینڈنگ کی اجازت میں تاخیر کا حوالہ دیا۔
ایک معاون نے صدر کو مطلع کیا کہ دبئی نے اترنے کی اجازت نہیں دی لہٰذا ہیلی کاپٹر کا رخ کراچی کی طرف موڑنے کا ارادہ ہے، زرداری نے انکار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ میں اجازت کیلئے 30 گھنٹے انتظار کر لوں گا لیکن کراچی نہیں جاﺅں گا۔
واٹرمیٹرزلگیں،بل آئیں گےتوسمجھ آئےگی کہ پانی ضائع نہیں کرنا، لاہور ہائی کورٹ
مزید :