Express News:
2025-11-03@12:39:22 GMT

بھارتی وزیراعظم کی اشتعال انگیزی

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

دفتر خارجہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان پر دہشت گردی، اشتعال انگیزی کی حمایت کے الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست گجرات میں ایک ریلی سے خطاب میں ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا۔ انھوں نے ڈرامائی انداز میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو آتنک کی بیماری سے مکت کرنے کے لیے پاکستان کے عوام کو آگے آنا ہوگا، سکھ چین کی زندگی جیو، روٹی کھاؤ۔ ورنہ میری گولی تو ہے۔

 نریندر مودی نے جب بھی اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں پاکستان پر جنگ مسلط کی، پاکستانی فوج نے دس مئی کو ایسا کرارا جواب دیا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منت سماجت کرکے بھارت نے جنگ بندی کرائی۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا فاشز م بھارتی جمہوریت میں داخل ہوگیا ہے؟ بی جے پی تشدد پسندانہ نظریات، مذہبی تعصب اور مسلم دشمنی، کی بنیاد پر اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھی بی جے پی کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں تاہم نریندر مودی نے جب سے بی جے پی پر کنٹرول حاصل کرکے وزارت عظمیٰ حاصل کی ہے، بھارت کی پاکستان کے بارے میں جارحانہ پالیسی میں شدت پیدا ہوئی ہے جب کہ ہماری طرف سے امن کا واضح پیغام ہے۔

بھارت کے جنگی جنون کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالی مفادات کے لیے جنگ کا خواہش مند ہو اور اگر واقعی ایسا ہے تو بھارتی دانشور، اہل قلم اور بھارتی عوام کو اس جنگی جنونیت کے خلاف باہر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کرنے ہوںگے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت اپنی نفرتوں کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوپا رہا۔ وہ ناقابلِ یقین جمہوریت، معاشی طاقت یا ترقی پسند ہونے کا کتنا ہی جھوٹا راگ کیوں نہ الاپے، دنیا اس کی حقیقت سے آشنا ہوتی جارہی ہے۔

بھارت کے اپنے اندر اس بات نے زور پکڑنا شروع کردیا ہے کہ جب پاکستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھائے رکھا ہوا ہے تو آخر ہم کس لیے جنگ مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بھارتی عوام اپنی ہی حکومت اور میڈیا سے سوال کر رہے ہیں کہ بھارتی فضائیہ پاکستان کے اندر حملے کے نہ کوئی ثبوت دے سکی، نہ ہی پاکستانی جہاز کے گرنے کا کوئی ملبہ دکھایا جاسکا، نہ ہی بھارت او آئی سی اجلاس میں کوئی کامیابی سمیٹ سکا، الٹا مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے بھارت کو کشمیر میں مظالم بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ اتنی سفارتی تنہائی کے بعد بھی جنگی جنونیت آخر کس لیے؟

 بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے انتہاء پسندانہ نظریات سے عالمی برادری مکمل طور پر آشنا ہے، انتہاپسندی کا یہ بخار آج کا نہیں برسوں پرانا ہے۔ اس وقت دنیا میں ہر طرف پاکستان کی امن کو فروغ دینے کی کوششوں کو سراہا جا رہا ہے۔ دنیا پر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مستقل جدوجہد میں مصروف ہے، جب کہ دوسری جانب بھارت نفرت پھیلانے اور دوبارہ جنگ مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔

دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات اور اربابِ اقتدار گزرے ہیں جو اپنے انتہاء پسندانہ نظریات، اور ظلم و ستم کی وجہ سے ایڈولف ہٹلر اور میسولینی کی مانند تاریخ کا سیاہ باب ہیں جنھوں نے نازی ازم اور فاشزم جیسی تحریکوں کو پروان چڑھایا ہے۔ نسلی تعصب اور تفاخر کی آڑ میں ظلم و ستم ان تحریکوں کا وطیرہ رہا جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، اسی لیے جب بھی ظلم و بربریت کی بات ہوتی ہے تو دنیا انھیں بطورِ حوالہ پیش کرتی ہے۔ بدقسمتی سے عصرِ حاضر میں بھی ایسے اربابِ اقتدار موجود ہیں۔ اس وقت دنیا کی نام نہاد جمہوری ریاست بھارت کے سربراہ نریندر مودی کو دنیا کے ظالم حکمرانوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔

 پہلگام میں پیش آنے والے المناک واقعے میں اہم سیکیورٹی کوتاہیوں کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے مودی اور ان کے اتحادیوں نے خوف و ہراس، جنگی جنون، قوم پرستی اور اسلامو فوبیا کی نئی لہر کو بھڑکانے کے لیے صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔ وہ پوری قوم کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی طرف سے لاحق سیکیورٹی کے خطرے کے گرد گھیرنے میں کامیاب ہو گئے، بھارتی میڈیا ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔

بڑے میڈیا چینلوں نے روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں نت نئے جھوٹے پراپیگنڈے کرکے اس صورتحال کو آسان بنایا۔ یہ میڈیا آؤٹ لیٹس میدان جنگ میں تبدیل ہوگئے، مودی حکومت نے جان بوجھ کر اس ماحول کو اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے ترتیب دیا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں کیا گیا جب خاص طور پر ریاست بہار میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات قریب تھے۔ یہ بھارت کے محنت کش عوام کی توجہ ملک کو درپیش مادی مسائل، بڑھتی ہوئی بیروزگاری، عدم مساوات، غربت اور مختلف قسم کی محرومیوں سے ہٹانے کی بھی ایک کوشش تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 16.

1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

 بھارت اور پاکستان ماضی میں جموں و کشمیر پر تین مکمل جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ کوئی بھی ملک ایک اور مکمل تنازعہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت خاصی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ بہت زیادہ مقروض ہے اور اسے بہت سے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ صرف 2 فیصد سے زیادہ کی سست اقتصادی ترقی کی شرح کے ساتھ یہ ملک ایک اور بڑی جنگ میں الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ بھارت کی معیشت کافی مضبوط اور بڑی ہے۔

مودی حکومت نے بھارت کے 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے اور ایک بڑی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے کے امکانات کو ظاہر کیا ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع بھارت کے اندر استحکام پر منحصر ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی کے ساتھ جنگ کی صورت میں سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کیا جا سکتا۔

سیاحت کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہوگا۔ ہم دونوں ملکوں میں پروازوں کی منسوخی کا پہلے ہی مشاہدہ کر چکے ہیں، اور حالیہ تناؤ کا مزید سنگین صورت اختیار کرنا کسی بھی ملک کے تزویراتی یا اقتصادی مفاد میں نہیں ہے، اگرچہ بھارتی سرمایہ داروں نے ابتدائی طور پر جنگی جنون کی حمایت کی ہو گی، لیکن بعد میں ہوائی اڈوں کی بندش اور پروازوں کا رخ موڑے جانے جیسے اقدامات نے ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ بھارتی صنعتی شعبے نے تب سے بیانات جاری کیے، جن میں تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 9 مئی کوبھارتی اسٹاک مارکیٹس اور روپے کو گراؤٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات کی نزاکت کے مطابق امریکا ہی وہ واحد طاقت ہے جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ہی توجہ دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر امریکا نے دونوں ریاستوں کے درمیان امن قائم کرنے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔

جنگ بندی نے مسلح کارروائیاں روک دی ہیں، البتہ زبانی اور سفارتی حملے جاری ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی تاریخ میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا ہے، جس میں ویزوں کی روک تھام، سفارت کاروں کی بے دخلی، سرحدوں کی بندش، فضائی حدود کی پابندی اور تجارت کی معطلی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ بالآخر یہ سرحد کے دونوں اطراف جموں و کشمیر کے باسی اور دونوں ملکوں کے عام لوگ ہیں، جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور جو اس جاری بحران میں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

اگر انتہاء پسندانہ نظریات کی سرکوبی نہ کی گئی تو عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہٹلر کی طرح مودی بھی تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتا ہے۔

بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کی وجہ سے اقوام عالم سنگین حالات و واقعات سے دو چار رہی ہیں، پوری دنیا میں تباہی برپا ہوئی جس کی بہت بھاری قیمت جان و مال اور عزت و آبرو کی صورت میں ادا کی گئی، آج بھی نسل پرستانہ نظریات کی بنیاد پر ’’ گجرات کا قصائی‘‘ کے نام سے مشہور نام نہاد جمہوری ریاست کے وزیر اعظم نریندر مودی کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جنون میں انسانی حقوق کی پامالی میں ہر حد پار کرچکے ہیں۔ بی جے پی قومیت پرستی کی آڑ میں عالمی دنیا کو ایک بڑی تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے جہاں سے واپسی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ جنوبی ایشیا کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی امن اور سیکیورٹی کے لیے بھی یہ بہت بڑا خطرہ ہے ۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پسندانہ نظریات پاکستان کے جنگی جنون بھارت کے بی جے پی نہیں ہو گیا ہے رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا

سٹی42:   چھ سے نو مئی کے دوران 90 گھنٹے کی جنگ میں  خارش زدہ کتے جیسی حالت ہو جانے کے بعد بھارت کی ہندوتوا پرست حکومت تو اب تک زخم چاٹ رہی ہے اور ذلت کے داغ دھونے کے لئے آج کل گودی میڈیا میں پاکستانی سرحد کے ساتھ "کراچی پر قبضہ کر نےکی جنگی مشق" کا ڈھونگ رچا رہی ہے لیکن بھارت میں رہنے والے سکھ بھارتی حکومت کی خود ساختہ کشیدگی کا کوئی اثر نہیں لے رہے اور سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو  جی کے جنم دن پر کثیر تعداد میں پاکستان آ رہے ہیں۔ اس صورتحال پر بھارت کی ہندوتوا پرست مودی حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ 

بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار

بھارت کی اپوزیشن کانگرس کے ساتھ وابستہ اخبار "قومی آواز"  نے بھی پاکستان کے سکھ یاتریوں  کو گورونانک دیو جی کے جنم دن کی مذہبی تقریبات کے لئے پاکستان آنے کی کھلی اجازت دینے کے عمل کو آپریشن سیندور کی تلخی کم کرنے کی کوشش کا رنگ دیا ہے۔ حالانکہ مودی حکومت کے نام نہاد  ’آپریشن سندور‘ کے بعد ہند-پاک  تعلقات میں آئی ہوئی تلخی آج کل پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی فوج کی جنگی مشقوں کی آڑ میں نئی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ایک بار پھر عروج پر ہے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا  

پاکستان نے 2100 سکھ زائرین کو بابا گورونانک جی کے جنم دن کی تقریبات کے لئے ویزے جاری کئے ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری ذرائع کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ پاکستان سکھ کمیونٹی کو بھارت کی  ہندوتوا پرست مرکزی حکومت کے ساتھ  کشیدگی کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ پاکستان سکھ کمیونٹی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ارکان کا دوسرا گھر ہے۔ یہاں ان کے مقدس ترین استھان ہیں، سکھوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کے لئے سہولیات فراہم کرنے میں پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔
اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان نے سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کے یوم پیدائش کی مذہبی تقریبات میں شرکت کے لئے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان آنے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے ہیں۔
دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن نے رواں ہفتہ  بتایا کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کا یوم پیدائش منانے کے لیے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان جانے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے گئے ہیں۔

نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی

 واضح رہے کہ ہر سال ہزاروں سکھ زائرین ویزا-فری کرتارپور کوریڈور کے ذریعہ پاکستان جاتے ہیں۔ یہ کوریڈور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع گرودوارہ دربار صاحب کو ہندوستان کے گرداس پور ضلع کے گرودوارہ ڈیرہ بابا نانک سے جوڑتا ہے۔
 
ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق زائرین اپنے سفر کے دوران ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور صاحب گرودواروں کی زیارت کریں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویزا جاری کرنے کا عمل 1974 میں بنائے گئے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے دو طرفہ پروٹوکول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان میں پاکستان کے قائم مقام سفارت کار سعاد احمد واریچ نے ہندوستانی سکھ زائرین کو روحانی طور پر خوشحال اور اطمینان بخش سفر کی نیک خواہشات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کے تحت زیارت گاہوں کے سفروں کو آسان بناتا رہے گا۔
 ننکانہ صاحب ہندوستان کی سرحد سے 85 کلومیٹر (52 میل) مغرب میں لاہور سے آگے واقع ہے۔ وہاں جانے کے لئے سکھ یاتری پہلے لاہور آتے ہیں، پھر خصوصی بسوں سے ننکانہ صاحب جاتے ہیں۔ لاہور مین بھی سکھ مذہب کے کئی مقدس استھان ہیں، جن کی زیارت کسی بھی موقع کے لئے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کی یاترا کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔

محسن نقوی  کا ٹی چوک فلائی اوور ،شاہین چوک انڈر پاس منصوبوں کا دورہ  

گورو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات کی شروعات منگل سے ہو گی۔ اٹاری-واہگہ زمینی سرحد جو دونوں ممالک میں منقسم پنجاب کے عوام  کو جوڑتی ہے، مئی میں بھارت کے پاکستان پر بلا اشتعال حملوں سے شروع ہونے والی جنگ کے باعث بند کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے سرحد کو بھارت کے لئے اب بھی بند کر رکھا ہے اور شاید یہ طویل عرصہ تک بند ہی رہے گی لیکن مشرقی پنجاب کی سکھ کمیونٹی ایک الگ معاملہ ہے، سکھوں کے لئے پاکستان کے دروازے اب بھی ہمیشہ کی طرح کھلے ہیں۔ 

پنجاب : لاؤڈ سپیکر ایکٹ سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ

قابل ذکر ہے کہ سکھ  مذہب کے مقدس مقامات اور سکھ ثاقفتی ورثہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں واقع ہے۔ 1947 میں برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ہندوستان کا تقسیم ہوا تب کرتارپور پاکستان میں چلا گیا، جبکہ زیادہ تر سکھ برادری کے لوگ ہندوستان میں رہ گئے۔ 7 دہائیوں سے زائد وقت تک سکھ برادری کو کرتار پور آنےئ کے لئے لاہور کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔  2019 میں پاکستان کی جانب سے کرتارپور کوریڈور کھولنے کے فیصلے کو بین الاقومی سطح پر  سکھ کمیونٹی میں کافی پذیرائی ملی۔ اب کرتار پور کے نزدیکی علاقوں کے لوگ لاہور آنے کی بجائے براہ راست کرتار پور کوریڈور تک گورو نانک جی کے اس آخری استھان تک آ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی جانب سے فی الحال ویزا جاری کرنے کو لے کر کوئی آفیشیل بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن ہندوستانی اخبارات نے ہفتے کے روز اطلاع دی ہے کہ حکومت منتخب گروپوں کو سکھ مذہب کے بانی کی یوم پیدائش منانے کے لیے 10 روزہ تقریب میں حصہ لینے کی اجازت دے گی۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ کپ میں تاریخی کامیابی نے انڈینز کو ’1983 کی یاد دلا دی، مودی سمیت کرکٹ لیجنڈز کا خراجِ تحسین
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال