Juraat:
2025-07-24@02:40:59 GMT

دعاؤں کی قبولیت کا مجرب نسخہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

دعاؤں کی قبولیت کا مجرب نسخہ

آواز
ایم سرور صدیقی

درویش کے چہرے پر بلا کا نور تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُتر آیا ہو۔ اس کی گفتگو دل میں اترتی محسوس ہونے لگی ۔وہ بڑی متانت سے بولے جارہاتھا ،اگرمانگنے کا سلیقہ آتا ہو تودعا کے لئے ہاتھ اٹھنے سے پہلے ہی قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے۔ دراصل آج تک ہمیں مانگنے کا سہی سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم نے آنسو بہانا سیکھ لیاہے، وظائف سیکھ لئے ، ہم نے لمبی چوڑی دعائیں سیکھ لیں، ہم نے نسبت کا سہارا بھی لے لیا، الٹی سیدھی خواہشات کے حصول کے لئے شعبدہ بازوںکے پاس جانا وطیرہ بنالیا ۔اکثرلالچ یا دکھاوے کے لئے اللہ کی راہ میں بھی بانٹتے ہیں چلو اس سے کسی کی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہوگی لیکن اللہ کی راہ میں دینے کے لئے خلوص انتہائی ضروری ہے ۔
درویش نے دور کہیں خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا چلو یہ بھی سب اچھا ہے، درست ہے بلکہ بہت عمدہ ہے۔میں بالکل بھی اِن سب ادائوں کی نفی نہیں کر رہا ہوں ۔تمام اچھی باتوں پرسر تسلیم خم کرتا ہوں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تیرے دل میں کہیں کہیں بیتابی اور خیالوں میں الجھے ہوئے خیال باقی رہ جاتے ہیں تو میاں پھر اپنی ادائوںپر غور کی ضرورت ہے کیونکہ بات نہیں بن رہی۔ دل کو سو فیصد راحت اور سکون نہیں توثابت ہوا ہمیں اب تلک حقیقی معنوں میں مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا۔ ہم نے بظاہرخودکو پاک صاف کر لیا، کپڑا اچھا پہن لیا، چہرہ خوبصورت بنا لیا، خوشبو عمدہ لگا لی، حتی کہ سجدے بھی لمبے لمبے کر لئے ، نمازیں بھی پوری ادا کر لیں اور بالآخر حج بھی کرلیا اب حاجی صاحب کے القاب سے پھولے نہیں سماتے ۔ درویش نے ایک گہری سانس لے کر سامعین پر نظر دوڑائی پھرگویا ہوئے میاں پھر کہتا ہوں سب قبول ہے اور اچھا دستورِ زندگی کے یہی تقاضے ہیں مگر ذرا غورکیا ہے کبھی تو نے اپنے اندر بھی جھانکا ہے ۔یقینا دل گواہی دے گا۔ اپنے لئے اتنا سب کچھ کرنے کی ضرورت بھی تھی یا اِس سے کم میں بھی بات بن سکتی تھی پھر جو تو نے کیا اس میں خالص اللہ کی رضا کے لیے کتنا تھا؟ کبھی مڑ کر پیچھے بھی تو دیکھ لے، مگر تو کیوں دیکھے گا پیچھے ، تیرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے تجھے کسی کے پیٹ پر بندھے پتھر بھلا کیسے نظر آنے والا ہے۔پیٹ پر پتھر تو آقا ۖ نے بھی باندھے تھے اور جو جو کام اللہ کے حبیب ۖ نے ایک بار کر دیا ہے، خدا کی قسم وہ مٹنے والا نہیں ، اللہ کے حبیب ۖ کی ہرہر ادا مسلمانوںکو مجبوب ہونی چاہیے ۔پیٹ پر پتھرباندھنا بھی تو سنت ہے اور اب آپ کہیں گے ہر سنت پر آج کے دور میں کیونکر عمل ہو سکتاہے ۔ یہ کہتے ہوئے درویش زارو قطار رونے لگا۔ سامعین حیران پریشان اسے تک رہے تھے ،پھر درویش نے اپنا دامن اٹھایا اس کے پیٹ پردو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔اس نے آنسوئوں سے بھیگی داڑھی پر دونوںہاتھ پھیرے، حدِ نظر پھیلے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا با خدا آج رزق کی فراوانی ہے ۔اللہ ہمیں دنیاجہاںکی ہر نعمت عطافرماتاہے مگرپھربھی ناشکری ہماری نس نس میں زہرکی طرح پھیل گئی ہے ۔سوچتاہوں وہ کیا عالم ہوگا جب اللہ کے حبیب ۖ نے اپنے جسم ِ اطہر پر دو دو پتھر باندھے تھے میں ان کی سنت زندہ کرنے کے لئے کبھی کبھار پیٹ پر پتھرباندھتا ہوں دو دن کا فاقہ تو دو پتھر۔۔ رکھنے کو تو روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر کیسے احساس ہوتا کہ رحمت ِ عالم ۖ فاقے سے تھے مگر آج اس فلسفہ کو کون دیکھے، کون سمجھے ؟ حالانکہ آج کے دور میں فاقوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے بدہضمی سے مرجاتے ہیں ، وہ نظر کوئی کہاں سے لائے ، چونکہ بھرے پیٹ ایسا ماجرا تو نظر آنے والا نہیں ہے، جب وہ نظر ہوگی جب وہ مانگنے کا سلیقہ ہوگا ، مانگنے کے سلیقے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس جس کا جو جو حق چاہتے نا چاہتے آپ کے پاس کیسے بھی آ گیا ہے تو واپس لوٹا دو، قرضوں کو فی الفور ادا کیاکرو، پڑوسی کو عزت دو ، اس کا اکرام کرو، بھائی کو بھائی مان لو، بہن کو اور بیٹی کو اس کا حق فوراً دے دو۔ یہی تمہارے حق میں بہترہے ، اللہ کی مقرر کردہ حدود کے قریب بھی مت بھٹکو ورنہ تمہاراشمارحد سے تجاوزکرنے والوں میں ہو گا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زنا، قتل، شراب، چوری،حق تلفی،بدزبانی اور دیگر جتنے بھی بے حیائی والے کام ہیں ان سے توبہ کرلو کیا تمہیں یادنہیں اِن سب باطل کاموں کی ابتدا جھوٹ ہے بلکہ مذاق میں بولا گیا جھوٹ بھی گناہ ہے، خیر باتوں سے بات نکلتی نکلتی کبھی کس رخ کو جاتی ہے کبھی کس رخ کو مجھے خود بھی نہیں پتہ، مگر بات شروع کرنے سے پہلے یہی نیت کی تھی کہ اللہ مجھے وہ بات کہنے کی توفیق دے جو اس کے بندوں کے حق میں بہتر ہو، میں آج تمہیں ایک راز کی بات بتائوں اللہ تبارک تعالیٰ سے مانگنے کا صحیح اور سو فیصد طریقہ یہ ہے کہ اپنے والدین کو راضی کر لو پھر ان کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو۔ یقینا یہ دعا ردنہیں ہوسکتی ۔والدین جیسے راضی ہوتے ہیں ان کو راضی کر لو ۔وہ تمہاری تھوڑی سی توجہ سے خوش ہوجائیں گے ۔ان کے پاس تو بیٹھا کرو جیسے بچپن میں وہ تمہیں خوش کیا کرتے تھے ،آج ان کو خوش کرنے کیلئے کبھی کبھار ان کی پسندکی کوئی چیز لے آیا کرو ۔ اس کے بدلے میں تیرے والدین اتنی دعائیں دیں گے کہ اللہ پاک تمہاری ہر دعا شرف ِ قبولیت بخشے گا۔ کبھی غورکرو آج ہم دنیا کے مشغلوں میں اس قدرگم ہو گئے ہیں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے ہیں کبھی خود کو بھی تلاش کر اسی میں عافیت ہے۔ تیرا با پ جنت کا دروازہ ہے اور جنت تیری ماں کے قدموں میں پڑی ہے اور تو مورکھ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور لوگوں سے جنت کا پتہ پو چھتا پھرے یہ انصاف تو نہیں ہے ۔والدین راضی ہونگے تو اللہ راضی ہوگا ، اللہ راضی ہوگا تو جگ راضی ہوگا،اور سنو اللہ کی مخلوق کو معاف کرنا زندگی کا شعاربنالو ۔معاف کرنا اللہ کی شان ہے ۔اس عادت کے طفیل اللہ تمہاری غلطیوں،کوتاہیوں اور گناہوںکو معاف کرے گا۔ یقین جانو دعائوںکی قبولیت کا یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔ دعاہے ا للہ ہمیں اپنے والدین کو ہمیشہ راضی رکھنے کی توفیق عطاکرے اور اپنی اور اپنے حبیب ۖ کی محبت عطا فرما ئے ۔آمین

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: مانگنے کا اللہ کی کے لئے ہے اور پیٹ پر

پڑھیں:

دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟

 ’مجھے نہیں پتہ تھا میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر رہی ہوں۔ میں تو بس جینے کی کوشش کر رہی تھی‘ یہ الفاظ تھے 24 سالہ ریچل کے جنہوں نے دبئی کے ایک ریستوران میں بطور ویٹرس کام شروع کیا لیکن جلد ہی وہ ٹک ٹاک اسٹار اور مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار بن گئیں۔

یہ کہانی کیمرے کے پیچھے ایک ایسی عورت ہے جو مس یونیورس فلپائنز 2025 میں خود ہی اپنا میک اپ اور بال بناتی تھی، جو بغیر کسی اسٹائلسٹ یا ٹیم کے فلپائن واپس گئی، اور جس نے لپ اسٹک کا رنگ اپنے بھائی کی رائے پر چنا۔ وہ مس یونیورس فلپائنز کے مقابلے میں اورینٹل مندورو کی نمائندگی کر رہی تھیں، جو منیلا سے 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک صوبہ ہے۔

ریچل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دسمبر 2022 میں جب وہ پہلی بار دبئی آئیں، تو اُن کا مقصد شہرت، تاج یا ٹک ٹاک فالوورز حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے والد کے کووڈ کے دوران انتقال کے بعد صرف اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل تھا۔ میں سورج کی گرمی میں لمبے وقت تک کام کرنے کی عادی نہیں تھی۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ کچھ کرنا ہوگا۔

وہ کہتی ہیں جب وہ گلف نیوز کے دفتر آئیں اس وقت وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کی یہ محنت، صبر، اور خاموش خواب ایک دن انہیں وائرل فیم اور مس یونیورس فلپائنز 2025 جیسے بڑے مقابلے میں لے جائے گا۔ 13 سال کی عمر سے اب تک 170 سے زائد مقابلوں میں حصہ لینے والی ریچل بتاتی ہیں کہ میری سب سے پہلی دلچسپی حسن کے مقابلے رہے ہیں اور دبئی میں کام اور وطن کی یاد میں اس خواب کو دوبارہ جینا شروع کیا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ انجوائمنٹ کے لیے ایک ویڈیو بنا کر دیکھتے ہیں، لیکن وہ ویڈیو اچانک وائرل ہو گئی جس سے میں حیران رہ گئی۔ یہ ویڈیو محض ایک مشغلے کے طور پر شروع ہوئی، لیکن جلد ہی ان کی زندگی بدل گئی۔ ریچل بتاتی ہیں کہ میں نے خود سے کہا کہ اگر لوگوں کو یہ پسند آیا ہے تو شاید میں اور بھی کر سکتی ہوں اور انہوں نے واقعی بہت کچھ کیا۔ آج ریچل کے صرف ٹک ٹاک پر 1.2 ملین سے زائد فالوورز ہیں لیکن ان کی کامیابی کسی ایک رات کی کہانی نہیں ہے۔

مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی، کوئی گلیم اسکواڈ نہیں۔ میں اپنے بھائی سے پوچھتی تھی آج کے ایونٹ کا کیا رنگ ہے اور پھر اپنا میک اپ ویسا کرتی،‘ وہ کہتی ہیں ’یہ تھکا دینے والا تھا، لیکن ناقابلِ فراموش تھا اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا، دبئی نے مجھے شکر گزار ہونا سکھایا۔ میں نے سوچا تھا کہ یہاں تمام فلپائنی بس محنت سے کام کرتے ہیں اور پیسے گھر بھیجتے ہیں۔ مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کی کمیونٹی سے اتنی محبت ملے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: ‘مس یونیورس’ کا تاج 60 سالہ حسینہ نے سجا لیا

اپنی کامیابیوں کے بارے میں وہ مزید بتاتی ہیں کہ انہیں حیرت ہوئی جب متحدہ عرب امارات میں فلپائنی لوگ انہیں مالز اور ریستورانوں میں پہچان کر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ اور جس ہفتے مس یونیورس کی کہانی لکھی، میرے بچوں کے اسکول کی 3 فلپائنی ماؤں نے کہا کہ وہ کتنی فخر محسوس کرتی ہیں، جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ نے میرے دل کو چھو لیا ہے۔

اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے تاج نہیں جیتا لیکن جب لوگ میرے ٹاپ 12 میں نہ آنے پر رو رہے تھے تب میں نے جانا کہ میں ان کے دل پہلے ہی جیت چکی ہوں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ مکمل ہوں، جسم، چہرہ، جواب سب کچھ پرفیکٹ ہو لیکن میں ہمیشہ خود کو یاد دلاتی تھی کہ میں یہاں کیوں ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کو متاثر کرنا تھا، صرف تاج جیتنا نہیں۔

ریچل کا کہنا تھا کہ ’میں خود کو خودساختہ اس لیے کہتی ہوں کیونکہ میں نے یہ سب خود بنایا۔ نہ کوئی مینیجر، نہ کوئی ٹیم۔ بس میں خود تھی‘۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگرچہ انہیں مشہور ہونے سے بہت مواقع ملے، لیکن وہ سوشل میڈیا کے نقصانات سے بھی واقف ہیں۔ ’لوگ سمجھتے ہیں وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ذاتی زندگی تو جیسے ختم ہو گئی۔ اس لیے کبھی کبھار میں بریک لیتی ہوں۔ سوشل میڈیا ڈیٹاکس واقعی ضروری ہے‘۔

ٹک ٹاکر کہتی ہیں کہ اگر میں اپنے خاندان کی مدد کر سکی، اور کسی ایک شخص کو بھی خوابوں کے پیچھے بھاگنے کی ہمت دے سکی، تو یہی میری کامیابی ہے۔ اپنے خواب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’نہ بیوٹی پیجینٹس، نہ ٹک ٹاک، میں فنکار بننا چاہتی تھی اور یہی میرا پہلا خواب تھا میں ٹی وی پر آنا چاہتی تھی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی موقع ملا، تو میں تیار ہوں۔ ڈرامہ، ہارر، کچھ بھی۔ بس خود کو ظاہر کرنے کا موقع ہو اور اگر کسی فلم کی آفر آئی تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ٹک ٹاکر مس یونیورس فلپائنز 2025

متعلقہ مضامین

  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • کرایہ
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد
  • ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، صیہونی اپوزیشن لیڈر
  • سانحہ قلات میں زخمی صابری قوال کے رکن شہباز اب شائد کبھی طبلہ نہیں بجا سکیں گے