پاکستان میں کار کمپنیوں کا بین الاقوامی حفاظتی معیارات سے فقط 9 فیصد مطابقت رکھنے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کو گزشتہ اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اور اسمبلرز 200 بین الاقوامی حفاظتی معیارات میں سے صرف 18 کی تعمیل کر رہے ہیں۔
باقی 182 معیارات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں عالمی معیارات سے کافی زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
کمیٹی کے ارکان نے ملک میں غیر محفوظ گاڑیوں کی پیداوار پر سنگین خطرے کا اظہار کیا اور عالمی حفاظتی پروٹوکول پر پورا اترنے میں ناکام کار ساز اداروں کے خلاف فوری اور سخت عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غیر معیاری حفاظت اور معیار کی وجہ سے پاکستان کی گاڑیاں بھارت اور چین کے مقابلے میں برآمد کے قابل نہیں ہیں، جو آٹو موبائل سیکٹر میں بڑے برآمد کنندگان بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: چینی کمپنی کا پاکستان میں الیکٹرانک گاڑیوں کے لیے سرمایہ کاری کا عزم
سیکریٹری صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ دو ایئر بیگز کی شمولیت گاڑیوں میں معیاری ہے۔ تاہم، کمیٹی کے چیئرمین نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں کام کرنے والے تین نامور غیر ملکی صنعت کار بھی مقامی ضوابط کی تعمیل نہیں کر رہے ہیں۔
کمیٹی کے ایک رکن نے ان کمپنیوں کو مزید نرمی دینے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے بغیر حفاظتی معیارات کے مطابق کام کرنیوالی کمپنیوں کو سزا دی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹو موبائل سیکٹر ایکسپورٹ برآمد کنندگان پروٹوکول صنعت و پیداوار قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آٹو موبائل سیکٹر ایکسپورٹ برآمد کنندگان پروٹوکول صنعت و پیداوار قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی کہ پاکستان میں کمیٹی کے
پڑھیں:
قطری این ایل جی سے مقامی پیداوار متاثر، کے پی کا جبری گیس بندش پر احتجاج
اسلام آباد:قطر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی مقامی تیل و گیس کی پیداوار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا نے جبری پیداوار میں کمی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
صوبے کی جانب سے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف پیداوار متاثر ہوئی بلکہ صوبائی حکومت کو رائلٹی اور ونڈ فال لیوی کی مد میں بھاری مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
مقامی آئل اینڈ گیس کمپنیوں جن میں او جی ڈی سی ایل اور ایم او ایل شامل ہیں کو بھی گیس کی جبری بندش کے باعث پیداوار میں کمی اور ریونیو میں نقصان کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: او جی ڈی سی ایل کی ضلع چکوال میں راجیان آئل فیلڈ سے تیل کی پیداوار بحال
اس حوالے سے ان کمپنیوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا ہے اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے توانائی و بجلی نے حالیہ اجلاس میں وفاقی حکومت کو بتایا کہ جبری گیس بندش نہ صرف ذخائر کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ صوبے کی مالی بنیادوں کو بھی کمزور کر رہی ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ مستقبل میں اس نوعیت کے اقدامات سے بچنے کے لیے ایک مؤثر اور مستقل نظام بنایا جائے۔ذرائع کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کو قومی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ تمام فریقین کی مشاورت سے مسئلے کا پائیدار حل نکالا جائے گا۔
دوسری جانب مقامی پیداوار کو نظرانداز کرتے ہوئے مہنگی ایل این جی درآمد کرنے سے نہ صرف گردشی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ملکی درآمدی بل پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ریکوڈک منصوبے سے 2028 تک سونے اور تانبے کی پیداوار متوقع، ترجمان او جی ڈی سی ایل
پاور سیکٹر ایل این جی اٹھانے سے گریزاں ہے جس سے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو سخت مالی مشکلات کا سامنا ہے۔جبری گیس بندش کے باعث اٹک ریفائنری لمیٹڈ (اے آر ایل) نے بھی اپنے مرکزی کروڈ ڈسٹلیشن یونٹ کو یکم جون 2025 تک بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ یونٹ یومیہ 32,400 بیرل کی صلاحیت رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ سابقہ حکومت نے قطر سے ایل این جی کے معاہدے بغیر مکمل تجزیہ اور منصوبہ بندی کے کیے جس کا خمیازہ آج توانائی کے شعبے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملک میں موجود دو ایل این جی ٹرمینلز میں سے ایک بدانتظامی کے باعث جزوی طور پر چل رہا ہے، جس سے توانائی کی ترسیل کا نظام مزید کمزور ہو گیا ہے۔