ایران کیخلاف حملے کے "سنگین نتائج" پر عرب ممالک کیجانب سے ٹرمپ کو "سخت انتباہ"
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
امریکی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ 3 اہم عرب ممالک کے رہنماؤں نے انتہاء پسند امریکی صدر کیساتھ ملاقات میں ایران پر حملے کی "شدید مخالفت" کرتے ہوئے خطے میں موجود امریکی اتحادیوں کو لاحق ہونیوالے اس اقدام کے "سنگین نتائج" پر خبردار کیا ہے اسلام ٹائمز۔ امریکی تجزیاتی ای مجلے ایکسیس (Axios) نے 3 باخبر ذرائع سے نقل کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب، قطر و متحدہ عرب امارات کے سربراہان نے انتہاء پسند امریکی صدر کی جانب سے ان ممالک کے حالیہ دورے کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف حملے کی "شدید مخالفت" کرتے ہوئے امریکی صدر کو "ایک نئے جوہری معاہدے" تک پہنچنے کے لئے کام جاری رکھنے کی نصیحت کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) کی "مخالفت" کرنے والے ممالک سعودی عرب و متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر خلیجی عرب ریاستیں بھی، اب "سفارتکاری" کی حامی بن چکی ہیں لہذا انہیں اس بات پر بھی گہری تشویش لاحق ہو چکی ہے کہ اس صورتحال میں کہیں ایران کے خلاف قابض اسرائیلی وزیر اعظم ہی "ٹرگر" نہ دبا دے یا ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات ترک کر کے فوجی آپشن کا انتخاب نہ کر لے!
اس بارے ایکسیس کا لکھنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، صدر متحدہ عرب امارات محمد بن زاید، اور قطری امیر تمیم آل ثانی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے کہ انہیں اس بات پر گہری تشویش لاحق ہے کہ اگر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو تہران کی جانب سے جوابی کارروائی کے باعث ان کے ممالک کو "بری طرح سے" نشانہ بنایا جائے گا۔ اس معاملے سے واقف ذرائع نے ایکسیس کو مزید بتایا کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ تینوں ممالک امریکی فوجی اڈوں کے میزبان ہیں، قطری امیر نے ٹرمپ کو کہا کہ ایسی صورتحال میں خلیجی ریاستیں کسی بھی دوسرے فریق سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
امریکی میڈیا نے لکھا کہ سعودیوں و قطریوں نے ایران پر اسرائیلی فوجی حملے سے متعلق اپنی "خصوصی تشویش" کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ اماراتی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم "سفارتی حل" کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایکسیس کے مطابق اس بارے امریکی حکام کا بھی کہنا ہے کہ تینوں عرب ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "ایران کے ساتھ مذاکرات" کی حمایت کی ہے۔
ادھر خلیج فارس کو جعلی نام دینے کے اپنے ارادے کے بارے جاری ہونے والے ٹرمپ کے بیانات کے بارے بھی 2 عرب حکام کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ خلیج فارس کے ممالک کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان پیدا ہو گیا ہے جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ایران کے ساتھ "غیر ضروری کشیدگی" بھی پیدا ہو گی۔ امریکی ای مجلے نے مزید لکھا کہ اس وقت سعودیوں و اماراتیوں کی ترجیح "علاقائی استحکام" کو برقرار رکھنا اور "اقتصادی ترقی" پر توجہ دینا ہے!!
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ، صورتحال کشیدہ
بحر عمان میں ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا واقعہ پیش آیا، جب ایرانی نیوی کا ہیلی کاپٹر اور امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس فٹز جیرالڈ آمنے سامنے آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے صورتحال خاصی کشیدہ ہو گئی، جو بالآخر امریکی جہاز کی جانب سے راستہ بدلنے پر ختم ہو گئی۔
ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق یہ واقعہ صبح 10 بجے کے قریب پیش آیا، جب امریکی جنگی جہاز نے مبینہ طور پر ایران کے زیر نگرانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس پر ایران کے تھرڈ نیول ریجن (نابوت) کے ایئر یونٹ نے فوری ردعمل دیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق، ایرانی ہیلی کاپٹر نے امریکی جنگی جہاز کو ایرانی حدود کی جانب بڑھنے پر تنبیہ کی اور جہاز کے اوپر پرواز کرتے ہوئے سخت پیغام دیا کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کرے۔
ایرانی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دوسری تنبیہ کے بعد ایئر ڈیفنس کمانڈ نے بھی صورت حال کا نوٹس لیا اور واضح کیا کہ ایرانی ہیلی کاپٹر دفاعی حکمتِ عملی کے تحت کارروائی کر رہا ہے۔ بالآخر امریکی جنگی جہاز نے جنوبی سمت میں راستہ بدل لیا، اور ایرانی پائلٹ نے کامیابی سے اپنا مشن مکمل کر لیا۔
ابھی تک امریکی فوج کی جانب سے واقعے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ایرانی دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جون 2025 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جس پر ایران نے سخت ردعمل دیا تھا۔ اُس کشیدگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک براہ راست ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے، اور مستقبل میں کسی بھی غلط فہمی یا اشتعال سے بڑا تنازع پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
Post Views: 5