Juraat:
2025-05-30@18:51:21 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

کئی ممالک کو دفاعی حوالے سے پریشان کُن صورتحال کا سامنا ہے جن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے ۔ البتہ پاکستان ،ترکیہ اور ایران تین ایسے مسلم ممالک ہیں جودفاعی طورپر مضبوط خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ ہتھیارخریدنے کے ساتھ خود بھی تیار کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے اور طیارہ سازی سے لیکر میزائل ،ٹینک اور دیگر جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب عالمی طاقتیں اپنی شرائط پر منہ مانگی قیمت پر دفاعی ہتھیار فروخت کرتیں اور حکم عدولی کی صورت میں پابندیاں عائد کرتی ہیں، ایسے میں پاکستان مسلم دنیا کے لیے اُمید کی کرن ہے ۔اِس بات کا چین کوبھی ادراک ہے فی الوقت مسلم دنیا کا وزن امریکی پلڑے میں ضرور ہے۔ البتہ متبادل کی خواہش موجود ہے چینی معیشت پُرکشش توتھی ہی اُس کی ہتھیارسازی کی صنعت بھی دنیاکی توجہ حاصل کر نے لگی ہے۔ اِس میں کسی حدتک مئی کی پاک بھارت جھڑپوں کا بھی کردار ہے۔ اِس دوران مغربی ٹیکنالوجی پر چینی ٹیکنالوجی کو برتری حاصل ہوئی۔ اکثر ماہرین کا اِس خیال سے اِتفاق ہے کہ معاشی کے بعد چین اب دنیا کو اپنی دفاعی مضبوطی باورکرانا چاہتا تھا۔ یہ مشکل پاک بھارت کشیدگی نے آسان کردی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ چینی جارحانہ رویے پربھارت ہربار خاموشی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور ہدف خیال کرتے ہوئے زک پہنچانے کی کوشش کرتا۔چین تنازعات سے الگ رہنے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر نظر ثانی کر چکا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کرانے کے بعد پاک افغان قیادت کی تلخیاں ختم کرانا معمولی کام نہیں۔ چین اِس طرح دنیا کو احساس دلا رہا ہے کہ وہ حریف ممالک کو حلیف بنانے پر قادرہے۔ بیجنگ کے حالیہ سہ فریقی مزاکرات نے خطے میں بڑی تبدیلی کی وہ بنیاد رکھ دی ہے جوچینی بلاک کی تشکیل کاسنگِ بنیادثابت ہو سکتی ہے ۔
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن خبردار کرچکے کہ عالمی طاقت کاتوازن ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے چین ،پاکستان اور انڈونیشیا مستقبل کی بڑی طاقتیں ہوں گی لیکن امریکی قیادت شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے یا پھر جان بوجھ کر ایسا تاثر دے رہی ہے کہ عالمی تبدیلیوں کی اُسے کوئی پرواہ نہیں نیزموجودہ امریکہ گاجر اور چھڑی کی پالیسی پربھی نظرثانی کر چکا ہے۔ حالانکہ ماضی میں اسی پالیسی سے فوائدحاصل کرتا رہا ہے۔ اب چھڑی پراکتفاکرتے ہوئے تاجرانہ ذہنیت سے امیر ممالک کے وسائل پرہاتھ صاف کرنے لگا ہے۔ مال کی فروخت میں بھی دبائو سے کام لیتا ہے۔ سعودی عرب ،قطر اور متحدہ عرب امارات سے ڈھیروں معاہدے دبائو کا ہی نتیجہ ہیں مگر چین پہلے ضرورت کا اندازہ لگاتا اور پھر مال فراہم کرتے ہوئے نرمی اور فیاضی سے کام لیتا ہے ۔رواں ماہ مئی کی جھڑپوں میں پاکستان کا ساتھ دیکر بھارت پر واضح کر چکا کہ تم توپاکستان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو لہذا ہمارے مقابلے کاسوچنابھی مت۔
چین کا خیال ہے کہ امریکہ مخالف بلاک واضح کرنے کا وقت آ چکا ۔روس اور ایران کا تو پہلے ہی امریکہ مخالف ممالک میں شمار ہوتا ہے پاک افغان بڑھتی تلخیاں چینی مفاد کے منافی تھیں جواُس کی تجارتی راہداریوں کی تعمیر جیسے منصوبوں کو متاثر کر سکتی تھیں۔ اسی لیے افغان وزیرِ خارجہ امیر خاں متقی کے آمد کے ساتھ پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی آمد یقینی بنائی تاکہ دونوں ممالک باہمی تحفظات دورکر لیں سہ فریقی مذاکرات سے قبل طالبان قیادت کا ٹی ٹی پی کے حوالے سے رویہ نرم تھا لیکن اب کچھ تبدیلی آئی ہے ۔پاکستان کے خلاف مصروفِ عمل تنظیموں اور گروہوں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے۔ اِس کاوش سے خطے میں امن کی فضابہتر ہوگی اور سرمایہ کاری اور تجارت کوفروغ ملے گا۔ آج بھی افغانستان میں قبائلی تقسیم ہے چین اور پاکستان کے تعاون سے طالبان پورے ملک کاکنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا ہوتاہے تو مضبوط اور خوشحال افغانستان کی منزل آسان ہوگی جس سے افغانوں کو غربت وافلاس سے چھٹکارا ملے گا۔
سہ فریقی مذاکرات کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ مضمون کی طوالت کاباعث بن سکتا ہے۔ المختصریہ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز کی طرف اشارہ ہے ۔امریکی نارواشرائط اور اسرائیلی فوجی کاروائیوں سے تنگ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں یہ سوچ نمو پا سکتی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے تعاون سے زیادہ بہتر انداز میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی جرات و مہارت نے دفاعی حوالے سے پریشان ممالک کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی وساطت سے اب چین زیادہ بہتر طریقے سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو گرویدہ بنا سکتا ہے۔ پاک افغان دوستی سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی آسان ہونے کے ساتھ دوردرازممالک تک چینی سامان کی بہترترسیل ہوسکے گی ۔نیز پاک افغان قیادت چینی مفاد کی بہتر نگہبان ثابت ہو سکتی ہیں۔
چین کا پاکستان کی آزادی وخود مختاری کے خلاف کسی اقدام کوتسلیم نہ کرنے کا اعلان معنی خیز ہے ۔یہ پاک چین یکجائی کاعکاس ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستان کو بھارت کے سوا کسی اور ملک سے خطرہ نہیں مگر اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان اپنی آزادی و خود مختاری کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کا اسی کی سرزمین پر جا کر جواب دینا اور ایران کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دلیرانہ جوابی کاروائی اِس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کادفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ بھارتی طیاروں کو مارگرانے اور پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری میں بھی یہی پیغام ہے۔ حالیہ پاک بھارت محدودجھڑپوں کے دوران چینی تکنیک سے چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کرنے میں مدد ملی اب چینی سہولت کاری سے پاک افغان قیادت اپنے اختلافی امور ختم کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ بیجنگ کے سہ فریقی مذاکرات نے واضح کردیاہے کہ افغانستان اب بھارت کا طرفدار نہیں بلکہ چین اور پاکستان کا اتحادی ہے ۔یہ ایک بڑی تبدیلی ہے سہ فریقی مزاکرات سے بھارت کی سفارتی تنہائی اُجاگر ہوئی ہے اور دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ چین اپنے اتحادیوں کے مسائل کو سنجیدہ لیتا ہے نیز امریکہ کی طرح دنیا کو دھمکاکر مال نہیں بیچتا ۔ایسے حالات میں جب امریکہ اور اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر شدید نوعیت کے تحفظات ہیں ۔پاکستانی وزیرِ اعظم کاتہران جانابہت معنی خیز ہے ۔اِس دورے کو چینی بلاک کی تشکیل میں پاکستانی کوششوں کے طورپر دیکھنابعیدازقیاس نہیں ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سہ فریقی مذاکرات پاکستان کا پاک بھارت کرتے ہوئے پاک افغان ممالک کو دنیا کو

پڑھیں:

ایران و چین کے باہمی تعلقات نئی ڈگر پر گامزن ہو چکے ہیں، چینی عہدیدار

چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل قانونی و سلامتی کمیٹی نے ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل کیساتھ ملاقات میں ایران کو خطے کے بااثر ممالک میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران و چین کے باہمی تعلقات ایک نئی ڈگر پر چل نکلے ہیں! اسلام ٹائمز۔ ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی اکبر احمدیان آج نے ماسکو سکیورٹی سربراہی اجلاس کے موقع پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل قانونی و سکیورٹی کمیٹی چن وین کنگ (Chen Wenqing) کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی ہے۔ ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق اس ملاقات میں علی اکبر احمدیان نے دونوں ممالک کی قدیم تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ ایران و چین کے درمیان باہمی تعاون پورے خطے میں سلامتی و اقتصادی خوشحالی لا سکتا ہے۔

سیکرٹری جنرل ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل نے علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے آزاد ممالک کے درمیان مسلسل مشاورت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا کا سکیورٹی میکانزم منصفانہ نہیں جبکہ مغرب اسی غیر منصفانہ نظام کو اپنے مذموم مفادات کے حصول کے لئے مسلسل استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے ایرانی صدر کے آئندہ دورہ چین کے بارے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے کے دوران دو طرفہ معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی کی جائے گی جیسا کہ ہمیں تجارتی تبادلوں کی صلاحیت کو سیاسی تعلقات کی سطح پر ہی بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ علی اکبر احمدیان نے مزید کہا کہ ایران ہمیشہ اپنے اتحادیوں کو (امریکہ کے ساتھ) مذاکرات و بالواسطہ گفتگو سے باخبر رکھتا ہے۔ دوسری جانب چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل قانونی و سلامتی کمیٹی چن وین کنگ نے بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران خطے کے بااثر ممالک میں سے ایک ہے اور چین ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ چن وین کنگ نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی راہ میں دشمنوں کی جانب سے حائل سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران و چین کے باہمی تعلقات ایک نئی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں اور دونوں ممالک کے رہنماؤں کی پیروی سے یہ باہمی تعاون اپنی بلند ترین سطح کو پہنچ جائے گا! ماسکو سکیورٹی سمٹ میں چینی وفد کی سربراہی کرنے والے چن وین کنگ نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک دہشتگردی سے نپٹنے کے لئے بھی مشترکہ تعاون کے منصوبوں تک پہنچ سکتے ہیں!

متعلقہ مضامین

  • تہذیبوں کا تبادلہ ہی اصل خوبصورتی ہے، چینی نائب صدر
  • عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے یکجہتی کی ضرورت ہے ، چینی وزیر خارجہ
  • چین ہمیشہ بحرالکاہل جزائر  ممالک کو اچھا شراکت دار سمجھتا ہے، چینی وزیر خارجہ
  • ایران و چین کے باہمی تعلقات نئی ڈگر پر گامزن ہو چکے ہیں، چینی عہدیدار
  • چین بحرالکاہل جزائر ممالک کے ساتھ مکمل احترام کے اصول پر کاربند رہا ہے، چینی وزیرخارجہ
  • چین نے تین فریقی تعاون  کو مسلسل فروغ دینے کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں، چینی میڈیا
  • چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر کا خواہاں ہے، چینی وزیراعظم
  • چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر کا خواہاں ہے، چینی وزیر اعظم
  • آسیان چین اور جی سی سی سربراہ اجلاس سے سہ فریقی تعاون کا ایک نیا باب کھل گیا، چینی وزیراعظم