(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارت اسرائیل فوجی تعاون میں عملی طورپر اسرائیلی اسلحے کے ساتھ خودکش ہاروپ کامی کاز ڈرونز کو پاکستانی اہداف پراستعمال کیاگیا۔اسرائیلی ڈرونزکے استعمال نے پاکستان،کشمیراور دیگرمسلم خطوں میں شدیدردعمل میں مسلم جذبات میں بھی بیداری پیداہوگئی۔ پہلے ہی غزہ میں معصوم افرادکی بے رحمانہ شہادتوں پر بہت ہی غم وغصہ پایاجاتاہے اوراب اسرائیلی ڈرونزاور دفاعی ٹیکنالوجی کے استعمال پر پاکستان میں اسرائیل کے خلاف مزید اشتعال پیداہوگیااوراب بھارت نے اسرائیلی ڈرونزاوردفاعی ٹیکنالوجی کے استعمال پر پاکستان میں اسرائیل کے خلاف مزیداشتعال نے پاکستانی افواج پردبابڑھادیااورعوام کابے پناہ اعتماداپنی افواج کے ساتھ بڑھ گیا۔عوامی سطح پریہ سوالات اٹھنے لگے کہ کیاہندویہودی اتحادمسلم دنیاکودبانے کی نئی کوشش ہے؟
پاکستان نے عندیہ دیاکہ اگربھارت اسرائیلی مددسے پاکستان کونشانہ بناتاہے توپاکستان کوبھی اسرائیل کے خلاف اقدام کاحق حاصل ہے۔ پاکستان کی طرف سے اسرائیل پرممکنہ ردعمل کی بات نے امریکاکو مزید پریشان کردیایہ وہ اہم نکتہ اورنازک صورتحال امریکا، اس کے مغربی اتحادی اوراسرائیل کے لئے ناپسندیدہ تھی، کیونکہ پاکستان کی جوابی پوزیشن ایک ایٹمی ملک کی حیثیت سے غیر معمولی خطرہ بن سکتی تھی۔یہی و ہ’’ریڈ لائن‘‘ تھی جس سے امریکانے پیچھے ہٹنے کافیصلہ کیا۔
اگرہم مستقبل کے منظرنامہ پرنگاہ دوڑائیں تو سوال پیداہوتاہے کیااس جنگی کامیابی کے بعد پاکستان چینی ٹیکنالوجی پرمزیدانحصار کرے گا؟جی ہاں،مستقبل میں پاکستان کاجھکاؤ مزید چین کی طرف ہوگا،اوریہ صرف ایک’’حلیفــ ‘‘نہیں بلکہ ’’شریک‘‘بننے کی طرف بڑھ رہاہے۔موجودہ صورتحال اورکامیاب مظاہروں کے بعد،پاکستان کے لئے چینی دفاعی تعاون میں مزیدگہرائی ممکن ہے۔جے(31اسٹیلتھ فائٹر)جیسے پراجیکٹس میں شمولیت لازم ہوگئی ہے۔دفاعی پیداوارمیں خودکفالت کے لئے چین کی ٹیکنالوجی کاحصول پاکستان کے دفاعی اداروں کی ترجیح بن چکاہے۔
جے ایف17تھنڈرکی اگلی جنریشن جے ایف20یابلاک4کی مشترکہ تیاری متوقع ہے۔ پاکستان کے لئے ممکنہ اگلاہدف جے31سٹیلتھ فائٹر گیری فالکن ہے جوکسی بھی جدیدطیارے کے مقابلے کاہے۔پاکستان اپنے دفاعی اداروں پی اے ٹی،ایچ آئی ٹی،این آرٹی سی کوچینی معاونت سے خودکفیل بنارہاہے۔چین اور پاکستان کی مشترکہ دفاعی تربیت،جنگی مشقوں کے لئے شاہین سیریزاور سائبرڈیفنس میں تعاون بڑھ رہاہے۔ پاک چین تعاون کے نتیجے میں پاکستان خودبھی خطے میں ایک دفاعی مرکزبننے کی طرف گامزن ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ چین نے اس مقام پرپہنچنے کے لئے آخرکن اصولوں کادامن مضبوطی سے تھاماہے کہ آج اس نے عالمی طور پرخودکوناقابل تسخیر منوا لیا ہے۔چین نے اپنی معاشی ترقی کےلئےجنگ سےگریزکےاصول کواپنایاہوا ہے۔ چین کاکہناہےکہ جنگ سے گریزکریں لیکن فیصلہ کن طورپرجیتنے کے لئے تیار رہیں۔ چین کی گزشتہ چار دہائیوں کی پالیسی میں فوجی جارحیت کی بجائے سفارتی دبائو،معیشت،اورتزویراتی پوزیشننگ پر توجہ رہی ہے۔چین کے عسکری مفکر’’سن زو‘‘کی کتاب ’’آرٹ آف وار‘‘میں جنگ کابنیادی اصول یہ بتایاگیا ہے کہ سب سے اعلی جنگ وہ ہےجولڑی ہی نہ جائے اوردشمن بغیرتلواراٹھائےہارمان لے۔ چین ہمیشہ ایسے حالات پیداکرتاہےکہ دشمن حملہ کرنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہوجائے یا خود ہی پیچھے ہٹ جائے۔چین نے اسی اصول پرعمل کرتے ہوئےسفارتی،معاشی اورتکنیکی میدان میں اپنی طاقت کواستعمال کیااورفوجی محاذپر خود کو محتاط مگرمکمل تیاررکھاہواہے۔
چین نے’’غیرروایتی جنگی حکمت عملی‘‘کو اپنایا۔ سائبروارفیئراورڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی میں مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری کرکے اس کے بہترین نتائج کو دنیاسے منوایا ہے۔ بحری طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے خاص طورپرجنوبی بحیرہ چین میں،چین کے جنگی بیڑے دنیاکے سب سے بڑے بیڑوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ چین کی جنگی حکمت عملی یہ ہے کہ دشمن کواپنے خطے میں داخل ہی نہ ہونے دیاجائے جس کے لئے اس نے جدید اینٹی ایکسیس ایریل ڈینائل اے2اوراے ڈی سسٹم کومتحرک کررکھا ہے۔چین کی پالیسی کادوسراحصہ یہ ہے کہ: اگرجنگ ناگزیرہوتوپہل چین کرے گااوراس جنگ کااہم پہلویہ ہوگاکہ اگرجنگ ہوتودشمن کو سنبھلنے نہ دو۔اس کی عملی حکمت عملی یہ ہوگی کہ پہلاوار اتنا کاری ہوکہ دشمن کوردعمل کاوقت نہ ملے۔الیکٹرانک جنگ سے دشمن کی مواصلاتی صلاحیت تباہ کردیاجائے۔ سِپریسِی اور سرپرائز اٹیک حملے سے پہلے حریف کو اندھیرے میں رکھنااوربعد ازاں ملٹی ڈومین وارفیئرمیں زمین، فضا، سمندر،سائبر اورخلامیں بیک وقت حملہ کرکے اپنی برتری قائم کرلی جائے۔اس کی عملی مثال اور ماڈل یہ ہو گا کہ:
چین کے اے ٹو،اے ڈی،اینٹی ایکسیس، ایریاڈینائل میزائل یہ یقینی بنائیں گے کہ اگر امریکا یااس کے اتحادی چین کے قریب آئیں توانہیں بڑھ کرچینی حدودمیں داخل ہونے سے پہلے نہ صرف روک دیاجائے بلکہ پہلے ہی مرحلے میں تباہ کردیا جائے۔ چین کی قیادت جانتی ہے کہ ایک براہِ راست جنگ کے نتائج معاشی اورسیاسی طورپر نقصان دہ ہوسکتے ہیں خاص طورپرامریکا کے ساتھ، اس لیے سائبرواراور پراکسی وارکوترجیح دی جاتی ہے ۔اس لئے اقتصادی دبائو اورڈیجیٹل اثرورسوخ کو (مثلاًافریقااورلاطینی امریکا میں)جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کیاجاتاہے۔پاکستان کے ساتھ چین کااتحاداسی پالیسی کا مظہرہے کہ پاکستان کو جدید ہتھیارفراہم کرکے چین نے ایک ایساپراکسی اسٹریٹجک شراکت دارحاصل کر لیا ہےجوجنوبی ایشیامیں میدانی جنگ کابوجھ اٹھاسکتاہے۔چین کی پالیسی ایک مثالی تزویراتی حکمت عملی ہے،جوبتاتی ہے کہ طاقت کااصل کمال یہ نہیں کہ تم لڑو،بلکہ یہ ہے کہ تمہارا وجودہی اتنا موثرہوجائے کہ دشمن لڑنے سے پہلے ہارمان لے ۔پاکستان کواس ماڈل سے سیکھ کراپنے عسکری، اقتصادی اورتکنیکی میدانوں میں بھی وہی جامعیت اوربیداری پیداکرنی چاہیے۔
چین کی چاردہائیوں پرمحیط دفاعی پالیسی کو اگر ایک جملے میں سمیٹاجائے تو وہ یہی ہوگا:جنگ نہ کرو، مگراگروقت آئے تودشمن کوسنبھلنے کاموقع نہ دو۔یہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ چین کی عسکری فکر،خارجہ پالیسی اورفوجی تیاریوں کی گہرائی پرمبنی ایک مکمل فلسفہ ہے۔ چین نے1979ء کے بعدسے کسی بڑی جنگ میں عملی طورپرحصہ نہیں لیالیکن اس نے دفاعی لحاظ سے اپنے آپکونہایت مستعد،متحرک اورسائنسی بنیادوں پر جدید ترین صلاحیتوں سے لیس کیاہے۔
اس حالیہ پاک بھارت جنگ میں ترکی نے ہمیشہ کی طرح پورے اخلاص کے ساتھ پاکستان کی مدد کااعلان کرتے ہوئے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ کشیدگی سے پہلے اس کی پاک نیوی کے ساتھ مشترکہ مشقوں نے بھارت اوراس کے اتحادیوں کویہ پیغام پہنچادیاتھاکہ اگراس نے سمندرکی طرف سے کوئی غلطی کی تواس کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے بحری بیڑے کی حرکت کااعلان توکیالیکن اپنی سرحدوں کے اندربھی بہت پیچھے رہاکیونکہ وہ سمجھتاتھاکہ اگراس نے مزیدغلطی کی توپاکستان نیوی کے اپنے میزائل اس قدرسرعت کے ساتھ دشمن کاتعاقب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ بحری بیڑے کے ساتھ اس پرلدے جنگی جہازبھی غرق ہوجائیں گے۔یادرہے کہ ترکی کی ابھرتی ہوئی دفاعی صنعت اب اپنے تیارکردہ’’بیراکٹارٹی بی2ترک ڈرونز‘‘، میزائل نظام اورآبدوزٹیکنالوجی اب صرف ترکی کے لئے نہیں بلکہ قطر،آذربائیجان اوردیگرمسلم ممالک کے لئے بھی قابل بھروسہ آپشن بن چکی ہیں۔ پاکستان-چین تعاون کی وسعت کایہ عالم ہے کہ پاکستان کوچین سے ملنے والی دفاعی مدد نہ صرف بھارت کے لئے توازن کاباعث ہے بلکہ یہ سعودی عرب،مصراورنائجیریاجیسے ممالک کے لئے بھی ایک مثال بنتی جارہی ہے۔اس کے ساتھ ہی ایران کی عسکری خودانحصاری کایہ عالم ہے کہ اس نے مغربی پابندیوں کے باوجود میزائل ٹیکنالوجی،ڈرونز،اور سمندری دفاع میں قابلِ ذکرترقی کی ہے۔اس کی ٹیکنالوجی یمن اورحزب اللہ جیسے اتحادی گروہوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مسلم نااتفاقی کی بناپرایران اس وقت امریکی حصارسے نکلنے کے لئے پوری کوششیں کررہا ہے۔ ترکی، پاکستان دفاعی معاہدے، قطر-ترکی اتحاد ، ایران، عراق مشترکہ دفاعی فورمز ،اور سعودی عرب کا پاکستان اوراردن سے تربیتی تعاون،ایک نئے اسلامی دفاعی بلاک کی جھلک دیتے ہیں اورمسلم ممالک میں باہمی دفاعی تعاون اس بات کامنتظرہے کہ خطے کے اسلامی ممالک کے قائدین سرجوڑکر بیٹھیں۔جب اسرائیل بھارت کوہتھیارفراہم کرتاہے تواس کابراہِ راست ردعمل اسلامی دنیامیں بڑھتے ہوئے اتحاداورہتھیاروں کی خودکفالت کی صورت میں سامنے آرہاہے۔اسرائیل اوربھارت کے دفاعی معاہدے اوراسلامی ردِعمل کے طورپرسامنے آنے کے قوی امکان اب پہلے سے کہیں زیادہ نظرآرہے ہیں۔
اسلامی دنیامیں عسکری توازن اب مغرب یاروس پرمکمل انحصارسے نکل کرایک باہمی، مشرقی اورخودمختاردفاعی ڈھانچے کی جانب بڑھ رہاہے۔یہ نہ صرف علاقائی طاقتوں کو مضبوط کررہاہے بلکہ امت مسلمہ کوعالمی سطح پرنئے مقام کی طرف لے جارہا ہے۔اسلامی دنیا،جوکبھی ہتھیاروں اورعسکری ٹیکنالوجی میں مغرب کی محتاج رہی،اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ حالیہ برسوں میں چین،ترکی،ایران اورپاکستان جیسے ممالک کی ابھرتی ہوئی دفاعی خودکفالت اورباہمی تعاون،اسلحہ جاتی توازن میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن چکاہے۔پاکستان نے ایک جنگی مہم کے ذریعے اپنے دفاعی صلاحیتوں کوثابت کیا۔چین کوعالمی سطح پربرتری دلائی جس نے امریکاو مغرب کوایک خاموش پیغام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تمام سیاسی انتشار،اقتصادی دبائو،اورعالمی میڈیاکے تعصبات کے باوجود اب بھی اہم ہے،اورہمیشہ اہم رہے گا۔اس لئے ضروری ہے پاکستان کوچین کے ساتھ دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرناچاہیے۔اسرائیلی دفاعی شراکت داریوں کاتجزیہ اور متبادل بناناوقت کی ضرورت ہے۔چین،پاکستان عسکری تربیت وپیداوارمیں مشترکہ ادارے قائم کئے جائیں۔مغرب کو پیغام دیا جائے کہ پاکستان، خطے کی سلامتی اور توازن کا کلیدی ستون ہے اورعالمی امن کے لئے پاکستان بہت اہم ہے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ پاکستان پاکستان کو ہے پاکستان پاکستان کی اسرائیل کے پاکستان کے حکمت عملی کے ساتھ کہ دشمن سے پہلے کی طرف چین کے چین کی چین نے ہے چین کے لئے
پڑھیں:
بلوچستان میں12 ضلعے بارش کو ترس گئے، آئندہ کیا ہو گا؛ مفصل رپورٹ
سٹی42: کلائمیٹ کی غیر متوقع کروٹ کے بعد بلوچستان کے 12 اضلاع میں خشک سالی کی شدت بڑھنے کا امکان بتایا جا رہا ہے۔
میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نےصوبائی حکومت کو شدید خشک سالی کے متعلق انتباہ کر دیا ہے۔
محکمہ موسمیات نے مشورہ دیا ہے کہ خشک سالی سے متاثر ہو رہے علاقوں میں "پیشگی اقدامات" یقینی بنائے جائیں۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ میٹ ڈیپارٹمنٹ کی پہلے والی رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے کئی علاقوں میں خشک سالی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں اب کوئی "پیشگی" اقدام کرنے کا مشورہ عملاً بے معنی مشورہ ہے۔
بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار
زراعت، مویشیوں اور عوامی روزگار پرخصوصی توجہ دی جائے۔
بلوچستان بنیادی طور پر خشک اور نیم خشک خطہ ہے۔ صوبے کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقے حالیہ خشک سالی سے خاص طور پر زیادہ متاثرہیں۔ جنوبی اورجنوب مغربی علاقے میں زمین میں نمی کا انحصار سردیوں کی بارشوں پر رہتا ہے۔ بلوچستان کے ان جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں میں ہر سال اوسط بارش 71 سے 231 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا
میٹ ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ مئی سے اکتوبر 2025 کے دوران بلوچستان کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں میں معمول سے 79 فیصد کم بارش ہوئی۔
نومبرسے جنوری 2026 کے دوران بھی ان علاقوں میں بارش معمول سے کم اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ یہ صورتحال طویل خشک موسم کی نشاندہی کرتی ہے۔
چاغی، گوادر، کیچ، خاران، مستونگ، نوشکی، پشین، پنجگور، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ اور واشک کے ضلعے خشک سالی سے زیادہ متاثر ہیں۔
نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی
موجودہ حالات سے زرعی علاقوں میں بھی پانی کی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔
ربیع کے کاشت کے موسم کے دوران آبپاشی کے محدود وسائل شدید دباؤ میں آ سکتے ہیں۔
Waseem Azmet