کیمبرج پیپر لیک کا معاملہ ایوان میں پہنچ گیا؛ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا سخت نوٹس
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
کراچی:
کیمبرج کے پرچے پاکستان میں آؤٹ ہونے کا معاملہ ملک کے ایوانوں تک جا پہنچا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کیمبرج پر عدم اعتماد اور معاملے پر باقاعدہ اور خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل ’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ نے اس معاملے پر خبر دیتے ہوئے کیمبرج کے پاکستان میں گرتی ہوئی ساکھ کو موضوع بنایا تھا۔
علاوہ ازیں، قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعے کی صبح چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی عظیم زاہد کی زیر صدارت ہوا، جس میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن محمد علی سرفراز نے ’’اے اور او لیول‘‘ کے مئی سیریز کے پرچے لیک ہونے کا معاملہ اٹھایا اور اس معاملے پر اجلاس میں کیمبرج کے رویے پر شدید تنقید کی گئی۔
اجلاس میں علی سرفراز کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے پاس ویڈیو شواہد موجود ہیں جو طلبہ نے انھیں دیے ہیں جو بتاتے ہیں کہ پرچے آؤٹ ہوئے ہیں، یہ وہ شواہد ہیں جس سے انکار ممکن نہیں تاہم اس منفی عمل سے انتہائی محدود تعداد میں طلبہ نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اب اگر کیمبرج پرچے منسوخ کرتا ہے تو ایوریج مارکنگ کی جاتی ہے تو اس سے طلبہ کا نقصان ہوگا لہٰذا کیمبرج پرچے دوبارہ لے یا پھر تھرش ہولڈ کم کرے۔
اجلاس کے دوران اس موقع پر پوچھا گیا کہ آخر کیمبرج کو پاکستان میں مانیٹر کرنے کی کونسی اتھارٹی ہے جس پر اجلاس میں موجود وفاقی وزارت تعلیم کے افسر بولے کہ کیمبرج کو ہم نہیں دیکھتے، آئی بی سی سی موجود ہے اس سے پوچھ لیتے ہیں۔
اجلاس میں موجود آئی بی سی سی کے ایگزیکٹیو و ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ملاح بولے کہ ہمیں تو آج معلوم ہوا ہے کہ کیمبرج کی مانیٹرنگ کے ذمے دار ہم ہیں جبکہ ماضی میں محکمہ تعلیم کے ہی ایک افسر نے ہی کیمبرج کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ یہ امتحانات برٹش کونسل کے علاوہ دیگر نجی اسکول بھی کروا سکتے ہیں جبکہ ہم سے اس بارے میں کبھی پوچھا ہی نہیں گیا۔
ڈاکٹر غلام علی ملاح نے مزید کہا کہ جب گزشتہ برس کیمبرج کا پرچہ آؤٹ ہوا اور بعد ازاں یہ پرچہ منسوخ کیا گیا تو ہم کیمبرج سے کہتے رہے کہ تحقیقات کے نتائج سے ہمیں بھی آگاہ کریں لیکن کیمبرج نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اور آئی بی سی سی کو ایک کورٹ نوٹس سے اس معاملے کا علم ہوا۔
اجلاس کے آخر میں طے کیا گیا کہ پرچے لیک ہونے کی تحقیقات اب قائمہ کمیٹی خود کرے گی۔ اس ضمن میں ایک ضمنی کمیٹی بنائی گئی جس میں ڈاکٹر علیم، زیب جعفر، محمد علی سرفراز اور ڈاکٹر غلام علی ملاح کو شامل کیا گیا۔ یہ کمیٹی کیمبرج کے پرچے آؤٹ ہونے کی تحقیقات کرے گی تاہم کہا گیا کہ کیونکہ کیمبرج کے پاکستان میں موجود عظمی یوسف سمیت دیگر افسران کا مینڈیٹ محدود ہے لہٰذا اگر ضرورت پڑی تو اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بیرون ملک کیمبرج سے بھی رابطہ کرسکتی ہے۔
یہ تحقیقات کیمبرج کی پاکستان میں نمائندہ عظمی یوسف کی استدعا پر 16 جون کے بعد شروع ہوگی۔ اجلاس میں عظمی یوسف نے پاکستانی تعلیمی بورڈ پر تنقید کی کوشش کی اور کہا کہ ان بورڈز کی کارکردگی کے باعث طلبہ ہمارے پاس آتے ہیں جس پر اراکین نے کہا کہ آپ اپنے بورڈ کی بات کریں پاکستانی بورڈ کو رہنے دیں پاکستان کے سارے بورڈ خراب نہیں ہیں کچھ کی کارکردگی بہتر بھی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں قائمہ کمیٹی قومی اسمبلی کیمبرج کے اس معاملے اجلاس میں گیا کہ
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26معطل ارکان بحال : قائم مقام سپیکر کے حکم کے بعد نوٹیفکیسن جاری
لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26 معطل ارکان کا معاملہ بالآخر حل ہوگیا ہے ، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں اسمبلی سیکرٹریٹ نے معطل اراکین کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ پارلیمانی وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ یہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی بھی خواہش ہے اور میری سپیکر سے درخواست ہے کہ اپوزیشن نمائندگان منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے، معطل چھبیس ارکان کی بحالی کی جائے تاکہ وہ اپنے حلقوں کی نمائندگی آزادانہ کر سکیں، جس پر قائم مقام سپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے کہا کہا کہ میں فوری طور پر چھبیس ارکان کو بحال کرنے کا حکم دیتا ہوں، جس پر اسمبلی سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کر کے ایوان میں پیش کر دیا۔27 جون کو وزیر پنجاب مریم نواز کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شدید ہلڑ بازی اور دھکم پیل کی تھی جس پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے 26 اپوزیشن ارکان کو دس دن اجلاس کی 15نشستوں کے لئے معطل کیا اور بعد ازاں 4 حکومتی ارکان نے سپیکر کو اپوزیشن کے 26 ارکان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن الیکشن کمشن کو دائر کرنے کی 4 درخواستیں جمع کروائیں۔ 4 درخواستوں پر سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے حکومت و اپوزیشن کو مذاکرات کی تجویز دی۔ 11 جولائی کو شروع ہونے والے مذاکرات کے 17 جولائی تک تین دور ہوئے، جس میں یہ طے پایا کے ایوان میں احتجاج کو اخلاقی اور پارلیمانی رکھا جائے گا، لیڈر آف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کی تقاریر خاموشی سے سنی جائیں گی اور ایوان میں گالی اور نازیبا الفاظ کی اجازت نہیں ہو گی، مذاکرات کامیاب ہونے پر حکومتی 4 درخواستیں سپیکر پنجاب اسمبلی نے نمٹا دی تھیں، اپوزیشن کی بحالی کے اعلان کے بعد اپوزیشن نے بھی اجلاس میں شرکت کا آغاز کر دیا ہے، جبکہ بحالی تک اپوزیشن نے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا۔