کم عمری کی شادی کےخلاف بل، اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراض پر انسانی حقوق کمیشن کو تشویش
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اسلامی نظریاتی کونسل کے کم عمری کی شادی کے بل پر اعتراض پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آرسی پی) نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ بچپن کی شادی کےخلاف بل بچوں کے تحفظ کےلیے ناگزیر ہے، پارلیمنٹ سے منظور بل کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے حقوق کی نفی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن نے مزید کہا کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کے تحفظ کےلیے ریاست آئینی و بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرے۔
ایچ آرسی پی نے یہ بھی کہا کہ بچیوں کے استحصال کی روک تھام کے لیے قانون پر فوری عمل درآمد ضروری ہے، بچوں کے تحفظ کو مذہبی تنازع نہ بنایا جائے۔
انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بل میں رکاوٹ ڈالنے پر شدید تحفظات ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ یک طرفہ مذہبی تشریحات قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، بچپن کی شادی کا خاتمہ قانونی اور اخلاقی تقاضا ہے، بچوں کے تحفظ کا وعدہ پورا کیا جائے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بچوں کے تحفظ کی شادی کہا کہ
پڑھیں:
امریکی ٹیکس دہندگان کا اعتراض
اسلام ٹائمز: امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کیخلاف استعمال کرنے کیلئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ انکے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کیلئے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
غزہ کی جنگ اپنے 20ویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے، امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں صیہونی حکومت کے لیے امریکی حکومت کی مالی اور فوجی مدد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک عنصر قرار دے رہی ہیں۔ ٹیکس پیئرز اگینسٹ جینوسائیڈ (TAG) نے نیشنل بار ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ مل کر بین الامریکن کمیشن برائے انسانی حقوق کے پاس ایک قانونی شکایت درج کرائی ہے، جس میں امریکی حکومت پر غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کی جنگ کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس تاریخی شکایت میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے لیے امریکی فوجی اور مالی مدد نے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے قتل میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ 133 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں فلسطینی نژاد امریکیوں کی سرکاری شہادتیں شامل ہیں، جنہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا۔
یہ مسئلہ نہ صرف غزہ میں انسانی بحران پر روشنی ڈال رہا ہے، بلکہ اسرائیل کے کلیدی حامی کے طور پر امریکہ کے کردار اور بین الاقوامی سیاست اور انسانی حقوق پر اس کے اثر و رسوخ کی بھی نشاندہی کر رہا ہے۔ زیادہ تر اسرائیلی حملے امریکی ہتھیاروں سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکی اسلحے کی امداد، بشمول بنکروں کو تباہ کرنے والے بم اور دیگر فوجی سازوسامان نے حملوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت سے ملکی حکومت پر تنقید میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ امریکی حکام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ یہ صورتحال امریکہ میں سیاسی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے اور حکومت پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔
غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کے کردار کی دنیا بھر میں مذمت کی جا ریی ہے۔ فلسطینی عوام کی حالت زار اور امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پر امریکہ کے اندر سے بھی صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ معروف امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے واشنگٹن کی غزہ جنگ سے متعلق پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی شراکت اور غزہ میں ایک خوفناک انسانی المیے میں واشنگٹن کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں نیتن یاہو کی جنگی مشین کی مالی معاونت بند کرے۔ جنگ کے ابتدائی روز ہی امریکہ نے صہیونی حکومت کے لئے 14 ارب ڈالر کی خطیر امدادی رقم منظور کرلی، جس میں سے 4 ارب ڈالر سے زائد کا آئرن ڈوم اور اور ایک ارب ڈالر سے فضائی دفاع کے دیگر آلات فراہم کئے گئے۔
امریکہ سے ملنے والے 14 ارب ڈالر غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی بجٹ کا ایک تہائی فیصد ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ میں 50 ارب ڈالر کی بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس طرح امریکہ نے صہیونی حکومت کی بڑی دفاعی مدد کی ہے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکہ نے حماس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسرائیلی فوج کو لاکھوں کی تعداد میں گولے فراہم کئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے فوراً بعد 15 ہزار بم اور 75 ہزار گولے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور گذشتہ روز آٹھ سواں ہتھیاروں سے لدا جہار تل ابیب پہنچا ہے۔ بہرحال امریکہ کے ٹیکس دینے والے شہری اس بات میں حق بجانب ہیں کہ ان کے ٹیکسوں کو غزہ کے بچوں کو قتل کرنے کے لیے کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی جوبائیڈن کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کے جنگی ساز و سامان میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی، آئندہ بھی یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔