آئی ایم ایف مشن نے حکومت سے مہنگائی میں کمی اور ٹیکس آمدن میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کو پانچ تا سات فیصد رکھا جائے اور پاور سیکٹر میں اضافی سبسڈی نہ دی جائے اور ٹیکس اہداف پورے ہونے تک سرکاری ملازمین کو کوئی ریلیف نہ دیا جائے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے بعض مطالبات سے اتفاق نہیں کیا اس طرح نئے بجٹ سے متعلق معاملات طے نہ ہو سکے اور حکومت کو نئے وفاقی بجٹ پیش کرنے کی تاریخ بڑھانا پڑی ہے۔ ہفتہ رواں کے دوران اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان رہا اور پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر تگڑا رہا اور سرمایہ کاروں کے چار ارب 51 کروڑ سے زائد ڈوب گئے اور حکومت کا تو یہ حال ہے کہ وہ ملک میں چینی بھی اپنے مقررہ نرخوں پر فروخت کرانے میں ہی کامیاب نہ ہو سکی تو یہ مہنگائی کیا کنٹرول کرے گی؟
ملک کی ایک معروف ٹیکس مشاورتی فرم نے نئے بجٹ کے سلسلے میں حکومت کو اپنی طرف سے بعض سفارشات پیش کی ہیں اور تجویز دی ہے کہ ملک کے تاجروں پر صرف ایک فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے اور حکومت غیر ضروری درآمدات کم کرکے مقامی پیداوار اور توانائی کو فروخت دے تاکہ ملک خودکفیل ہو سکے۔فرم نے شرح سود کو معقول بنانے، خام مال کی متوازن پالیسی سمیت دیگر سفارشات بھی پیش کی ہیں۔
ملک کے صنعتکاروں اور تاجروں کا یہ حال ہے کہ وہ دیکھتے آئے ہیں کہ ان کی تنظیمیں اور رہنما ہر بجٹ کے موقع پر حکومت کو تجاویز پیش کرتے ہیں مگر حکومت چونکہ من مانیوں کی عادی رہی ہے اور خود کو صنعتکاروں، تاجروں اور ایسوسی ایٹس سے زیادہ قابل سمجھتی ہے اور اپنے فیصلوں کو بہتر اور ملک کے لیے سود مند سمجھتی ہے جو اس وزارت خزانہ کے کہنے پر چلتی ہے جو ماضی کی طرح ٹیکس محصولات کا ہدف پورا کرنے میں اب بھی ناکام ہی رہا ہے جس پر آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے ایک بار پھر توجہ دلائی ہے مگر ٹیکس اہداف کی تکمیل میں ہمیشہ ناکام رہنے والے ایف بی آر کے عقل کل بڑے افسران اپنی کوتاہی کبھی نہیں مانتے اور مرضی کے اعداد و شمار پیش کر کے حکومت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر آئی ایم ایف مطمئن ہو نا ہو حکومت ضرور مطمئن ہو جاتی ہے اور سمجھ لیتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہو رہی ہے مگر عملی طور پر مہنگائی بہ مشکل ہی یا سرکاری ریکارڈ میں ہی کم ہوتی ہے جس پر حکومت خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیتی ہے۔
حکومت کرنے والے ہمیشہ تصویرکا وہی رخ دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی مرضی کا ہو۔ ذمے داران کی بھی یہی خوبی ہے کہ وہ حکومت کو حقائق کے بجائے وہی کچھ بتاتے ہیں جو حکمران سننا چاہتے ہیں اور انھی غیر حقیقی اطلاعات پر وہ دعوے کر دیتے ہیں کہ مہنگائی نچلی سطح پر آگئی ہے جب کہ ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے اور حکومت کو گمراہ کرنے کے لیے غیر حقیقی معلومات فراہم کر دی جاتی ہیں۔
حکومت اس کے ذمے داروں، متعلقہ محکموں اور وزارت خزانہ کو حقائق کا پتا نہیں ہوتا کیونکہ وہ فیلڈ کے نہیں بلکہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غیر فطری اور حقائق کے برعکس فیصلے کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لیے بجٹ تیاری کے وقت فیلڈ اور حقائق کا ادراک رکھنے والی صنعتی و تجارتی تنظیمیں ہوں یا مشاورتی فرمز جیسے غیر سرکاری ادارے اور افراد وہ تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں جو کبھی مانی ہی نہیں جاتیں۔
ہر بجٹ کے موقع پر بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنے شیڈو بجٹ حکومت کو پیش کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا عوام سے قریبی تعلق ہوتا ہے انھیں بھی مختلف ذرایع سے حقائق کا علم ہوتا ہے مگر ان کی بھی نہیں سنی جاتی اور ہر دفعہ حکومتی من مانیوں کا بجٹ پیش ہو جاتا ہے جس پر اسمبلیوں میں احتجاج بھی ہوتا ہے جو زیادہ تر دکھاوا ہی ہوتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی حکومت اپنا من مانا بجٹ پاس نہ کرا سکی ہو۔
اپوزیشن کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جس کی منظوری پر اپوزیشن بجٹ کو مسترد کر دیتی ہے تاکہ لوگوں کو اپنی مخالفت دکھا سکیں۔ آج تک کوئی حکومت اپنا بجٹ منظور نہ کرانے میں ناکام نہیں ہوئی۔ اپوزیشن ایوانوں میں بجٹ کی مخالفت کرتی رہے اور ایوان سے باہر بجٹ پر اعتراضات ہوتے رہیں مگر سرکاری بجٹ منظور ہوکر ہی رہتا ہے۔لوگ آئی ایم ایف کی پالیسی پر بھی حیران ہیں کہ وہ بھی مہنگائی کم ہونے اور ٹیکس اہداف کی تکمیل کے خواہش مند ہے مگر آئی ایم ایف کو اس وقت اعتراض نہیں ہوتا جب حکومت خود مہنگائی بڑھانے کے اقدامات کرتی ہے اور بجٹ اہداف پورے نہیں ہوتے اور حکومت قرضے لینے سے باز نہیں آتی اور معاشی ابتری کے باوجود حکومت جب چاہے ارکان پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی، اپنے وزیروں، ججز اور من چاہے افراد کی تنخواہیں بڑھا دیتی ہے جب کہ آئی ایم ایف کو تنخواہ داروں کو ریلیف دینے پر ضرور اعتراض ہوتا ہے۔
حکومت ٹیکس وصولی کے بجائے رشوت خوری اور اہداف میں ناکام رہنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی بلکہ بجٹ بنانے والوں کو الاؤنسز دیتی ہے اور مفت میں سفارشات پیش کرنے والوں کی نہیں سنتی اور بجٹ منظوری کے بعد بجٹ پر اعتراضات کرنے والے بھی تھک جاتے ہیں اور بجٹ اپنا کام دکھانا شروع کر دیتا ہے جس کے بوجھ تلے صرف متاثرین ہی پستے آئے ہیں۔
آئی ایم ایف اگر مہنگائی نہ بڑھانے کی تجویز دے رہا ہے تو حکومت کم ازکم اس بار آئی ایم ایف ہی کی سن لے اور مہنگائی مزید بڑھانے والا بجٹ مسلط نہ کرے کیونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور ٹیکس بچانے والے حکومت کو ٹیکس دینے کے بجائے ٹیکس بچانے والے مشوروں پر عمل کرتے ہیں جس سے ٹیکس وصولی ادھوری رہ جاتی ہے جس کی سزا بھی عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف اور حکومت حکومت کو اور ٹیکس کرتے ہیں دیتی ہے ہوتا ہے ہیں اور پیش کر ہے اور ہے مگر
پڑھیں:
’سولر پینل کی درآمدات پر ٹیکس بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں‘
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال کے مطابق سولر پینلز کی درآمد پر اضافی ٹیکس لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی سولر پینلز پر موجودہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کی کوئی تجویز ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں بارش، خیبرپختونخوا میں ژالہ باری سے گاڑیوں اور سولر پینلز کو نقصان
میڈیا رپورٹ کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اساتذہ کے لیے اہم ریلیف کا اعلان کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال سے اساتذہ 25 فیصد انکم ٹیکس چھوٹ کے اہل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سال کے لیے، انہیں یا تو رقم کی واپسی ملے گی یا اسی چھوٹ کی پالیسی کے تحت ایڈجسٹمنٹ ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں:نئی سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی تیار، جلد اعلان ہوگا: وزیر توانائی لغاری
ایف بی آر کے سربراہ نے یہ بھی بتایا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مل کر تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں اور دیگر شعبوں کو بھی مدد فراہم کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف ٹیکس چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال سولر پینل