واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 31 مئی ۔2025 )ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کے اثرات نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی کے میل مین سکول آف پبلک ہیلتھ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں شدید گرمی سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے ”ہیٹ ہیلتھ ایکشن پلانز“ میں ذہنی صحت کے مسائل کو یا تو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے یا ان کے لیے مناسب اور موثر اقدامات شامل نہیں کیے گئے.

(جاری ہے)

تحقیق کے دوران 24 ممالک کے 83 ہیٹ ہیلتھ ایکشن پلانز کا جائزہ لیا گیا نتائج کے مطابق 75 فیصد منصوبوں میں ذہنی صحت کے مسائل کا عمومی طور پر ذکر موجود تھا صرف 31 فیصد منصوبوں میں گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والے مخصوص ذہنی مسائل جیسے خودکشی کے خطرات یا نفسیاتی ایمرجنسی کا ذکر کیا گیا جبکہ زیادہ تر منصوبے عملی اقدامات یا حفاظتی حکمت عملیوں سے خالی تھے.

یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگرچہ ذہنی صحت کو ایک مسئلہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، تاہم اس کے حل کے لیے ابھی بھی واضح موثر اور مربوط حکمت عملیوں کی ضرورت ہے ماہرین کے مطابق شدید گرمی کے دوران ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان اثرات میں ڈپریشن اور اضطراب کی شدت میں اضافہ، نیند کی خرابی، معاشی دباﺅ اور بے گھر ہونے کا خطرہ، سماجی تنہائی اور ذہنی دباﺅ میں اضافہ شامل ہے.

تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ گرمی کی شدت ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں اس پہلو کو سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا یہ تحقیق ان ممالک کے لیے خاص طور پر اہم ہے جہاں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جیسے پاکستان ان ممالک کو چاہیے کہ اپنے ہیٹ ہیلتھ ایکشن پلانز میں ذہنی صحت کے خطرات کو شامل کریں ذہنی صحت کے ماہرین کی مشاورت سے عملی حکمت عملیاں تیار کریں اور عوامی سطح پر آگاہی مہمات چلائیں تاکہ لوگ گرمی کے دوران اپنی ذہنی صحت کا بہتر خیال رکھ سکیں.

یہ تحقیق اس جانب واضح اشارہ کرتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں ذہنی صحت کو نظرانداز کرنا ایک بڑی غفلت ہوسکتی ہے اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم جامع منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں تاکہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جاسکے. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ذہنی صحت کے گرمی کی شدت کی شدت میں کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

ڈاکٹر عدنان حیدر کی بوسٹن یونیورسٹی میں بطور ڈین تقرری، عالمی سطح پر خدمات کا اعتراف

اسلام آباد / بوسٹن(نیوز ڈیسک) معروف ماہر صحت عامہ ڈاکٹر عدنان حیدر کو بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کا نیا ڈین مقرر کر دیا گیا ہے۔ یہ تقرری امریکہ بھر میں کی گئی ایک قومی تلاش کے بعد عمل میں آئی ہے۔ بوسٹن یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈاکٹر عدنان حیدر 15 اگست 2025 سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

ڈاکٹر عدنان حیدر اس وقت جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ملکن انسٹیٹیوٹ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں گلوبل ہیلتھ کے پروفیسر اور ریسرچ و انوویشن کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ 2018 سے جی ڈبلیو یو سے وابستہ ہیں، اور انہوں نے اپنے دور میں ریسرچ کا سازگار ماحول پیدا کرنے، تحقیقی ڈھانچے کو مؤثر بنانے، اور اسکالرز کے لیے مواقع میں وسعت لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ان کے دور میں جی ڈبلیو یو میں کئی نئے اقدامات کیے گئے، جن میں ریسرچ سپورٹ ٹیم فار پبلک ہیلتھ اینڈ لا کا قیام، آفس آف ریسرچ ایکسی لینس کی تنظیم نو، پی ایچ ڈی اور ایم ایس اسٹڈیز کے لیے الگ دفاتر کا قیام، اور آن لائن سمر انسٹی ٹیوٹس کا آغاز شامل ہے۔ ڈاکٹر حیدر نے NIH-Fogarty کے گلوبل ہیلتھ ٹریننگ پروگرامز کی کامیاب فنڈنگ حاصل کی، جو اس ادارے کے لیے ایک نئی پیش رفت تھی۔ ان کی قیادت میں انسٹی ٹیوٹ نے بایوایتھکس جیسے حساس اور اہم شعبوں میں بھی نمایاں کام کیا۔

ملکن انسٹی ٹیوٹ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈین ڈاکٹر لن آر گولڈمین نے اس تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عدنان حیدر گزشتہ چھ سالوں سے ایک قیمتی اثاثہ رہے ہیں، اور اُن کی رہنمائی، تحقیق اور مشاورت نے طلبہ، فیکلٹی اور ریسرچ کمیونٹی پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوسٹن یونیورسٹی نے ایک باصلاحیت اور موثر رہنما کو منتخب کیا ہے اور ہم انہیں نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عدنان حیدر گزشتہ پچیس برسوں سے دنیا کے کم اور درمیانی آمدنی والے خطوں — جیسے افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ — میں صحت عامہ کی بہتری کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے نان کمیونیکیبل بیماریوں اور چوٹوں کے عالمی بوجھ کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی تحقیق میں بیماریوں کے معاشرتی و اقتصادی اثرات، خطرناک عوامل، ممکنہ مداخلتیں، صحت سے متعلق پالیسی سازی، اور بایوایتھکس کے اصولوں کا عملی اطلاق شامل رہا ہے۔ ان کا کام دنیا بھر میں ہزاروں صحت کے پیشہ ور افراد کی تربیت اور رہنمائی کا باعث بھی بنا ہے۔ انہوں نے 400 سے زائد تحقیقی مقالات اور عالمی رپورٹس تحریر کیں، جن میں بچوں کی چوٹوں، سڑک حادثات اور صحت کے نظام سے متعلق تحقیق شامل ہے۔

ڈاکٹر عدنان حیدر 15 اگست 2025 سے بوسٹن یونیورسٹی میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ ادھر جارج واشنگٹن یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ایک عبوری ڈین آف ریسرچ مقرر کرے گی اور مستقل سینئر ایسوسی ایٹ ڈین کے لیے باقاعدہ تلاش کا عمل شروع کرے گی۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پی پی ایس سی کا مختلف محکموں کی آسامیوں کے تحریری نتائج کا اعلان
  • کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
  • ڈاکٹر عدنان حیدر کی بوسٹن یونیورسٹی میں بطور ڈین تقرری، عالمی سطح پر خدمات کا اعتراف
  • شاہ محمودکانام9مئی واقعات پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا
  • اساتذہ کا وقار
  • کوہستان سکینڈل میں گرفتار ٹھیکیدار جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے
  • رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟
  • پنجاب یونیورسٹی نے فیسوں میں 59 فیصد تک اضافہ کر دیا
  • پنجاب یونیورسٹی کی فیسوں میں 59 فیصد تک اضافہ
  • اسلام آباد اور راولپنڈی میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری