میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو اورنگی ٹاؤن کے ہوٹل کی چائے پسند آگئی
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو اورنگی ٹاؤن کے ہوٹل کی چائے پسند آگئی، اور بے ساختہ بول اٹھے، .The Tea is Fantastic۔
ان الفاظ کا پس منظر کیا ہے؟ یہ پاکستان اور بھارت میں سب کو معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب آج اورنگی ٹاؤن میں ایک پارک کا افتتاح کرنے پہنچے تو وہاں انہیں بتایا گیا کہ ایک مقامی ہوٹل میں چائے بہت اچھی بنتی ہے۔
میئر کراچی چائے پینے جا پہنچے۔ چائے کی پہلی چسکی لیتے ہی بے ساختہ بول اٹھے، .
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم الرحمن
افتتاحی تقریب سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، بلدیاتی اداروں، اختیارات و وسائل پر قابض ہے لیکن عوام کو ان کا حق دینے اور مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جماعت اسلامی بااختیار شہری حکومت کا نظام چاہتی ہے، لاڑکانہ ہو، شکارپور یا حیدرآباد اور کراچی، بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنایا جائے، 17 سال میں کراچی کے لیے صرف 400 بسوں سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، ای چالان کا مسئلہ اگر بات چیت سے حل نہ ہوا تو مجبوراً احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا، صحت ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلبرگ ٹاؤن کے تحت فیڈرل بی ایریا بلاک 18 ثمن آباد ہیلتھ کیئر یونٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب اور بلاک 8 عزیز آباد میں شاہراہ نعمت اللہ خان کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد علاقہ مکینوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے، سندھ حکومت 17 سال میں صرف 400 بسیں لاسکی ان میں سے بھی معلوم نہیں کتنی چل رہی ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہیں،گٹر بہہ رہے ہیں، پنجاب میں جو چالان 200 روپے کا ہے وہی کراچی میں 5000 روپے کا ہے، بہت افسوس کی بات ہے کہ ٹریفک پولیس میں کراچی کے 10 فیصد شہری بھی نہیں ہیں، کراچی میں معیاری ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث پچاس لاکھ لوگ موٹر سائیکل چلانے پر مجبور ہیں۔