غزہ میں ڈاکٹر کے 9 بچے مار دیئے گئے، اسرائیلی مظالم پر امریکی یوٹیوبر بول پڑیں
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
فوٹوز اینڈ ویڈیوز شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام میں مس ریچل نے کہا کہ "آپ نے اس خاتون ڈاکٹر کو دیکھا، جس کے 9 بچے شہید کرکے اس کے پاس لائے گئے۔ آپ نے اس چھوٹی بچی کو دیکھا، جو آگ میں جل رہی تھی۔" اسلام ٹائمز۔ امریکی یوٹیوبر مس ریچل نے غزہ میں بچوں کے بہیمانہ قتل اور اسرائیلی فوج کے مظالم پر خاموش رہنے والے عالمی رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بچوں کے لیے تعلیمی مواد بنانے والی مشہور امریکی یوٹیوبر مس ریچل، جو امریکا بھر میں والدین اور بچوں میں بے حد مقبول ہیں، انہوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور بچوں کے قتلِ عام پر عالمی رہنماؤں کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ فوٹوز اینڈ ویڈیوز شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام میں مس ریچل نے کہا کہ "آپ نے اس خاتون ڈاکٹر کو دیکھا، جس کے 9 بچے شہید کرکے اس کے پاس لائے گئے۔ آپ نے اس چھوٹی بچی کو دیکھا، جو آگ میں جل رہی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ کبھی غلط نہیں رہا کہ کہا جائے بچوں کو بھوکا نہ رکھا جائے، ان پر بم نہ گرائے جائیں اور 15,000 بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اصل غلطی تو خاموشی ہے۔" خیال رہے کہ مس ریچل حالیہ دنوں میں اپنی سوشل میڈیا پر موجودگی کو غزہ میں جاری انسانی بحران کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے غزہ سے تعلق رکھنے والی ایک 3 سالہ بچی سے ملاقات بھی کی تھی، جو اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی ٹانگیں کھو بیٹھی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔