اڈیالہ جیل سے عدالت لایا گیا چوری کے کیس کا ملزم پولیس کو چکما دے کر فرار
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
راولپنڈی کی ضلعی کچہری عدالت میں پیشی کیلیے لایا گیا ملزم پولیس کو چکما دے کر حراست سے فرار ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق ملزم کی شناخت اسامہ کے نام سے ہوئی جسے اڈیالہ جیل سے راولپنڈی کی کچہری عدالت پیش کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم کو تھانہ وارث خان میں درج چوری کے مقدمے میں جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ ڈھیلی ہتھکڑی کا فائدہ اٹھا کر اسے کھول کر بھاگ گیا۔
ملزم اسامہ کے فرار ہونے پر سی پی او نے سخت نوٹس لے کر حکام سے رپورٹ طلب کرلیا جبکہ آخری اطلاع تک جیل ، کچہری پولیس ملزم کو گرفتار نہیں کرسکتی تھی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مودی سرکار کی زیرِسرپرستی آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان
بھارتی ریاست آسام میں حکومت کی سرپرستی میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔
ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے زیر سایہ اور آشیرباد سے آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان جاری ہے۔ بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل انتہا پسند ہندتوا سوچ کا عکاس ہے اور مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو نافذ کرنے میں آسام پولیس مسلمانوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ہندوتوا واچ انڈیپنڈنٹ ریسرچ پروجیکٹ کے مطابق ’’انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد آسام میں اقلیتوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق نومبر 2021ء میں آسام کے شہر جورہاٹ میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے رہنما انیمیش بھویان کو مشتعل ہجوم نے مار ڈالا۔ اس قتل کے الزام میں پولیس نے 13 افراد کو گرفتار کیا جس میں نیرج داس اور اس کا والد بھی شامل تھے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق یکم دسمبر کی رات نیرج داس پولیس حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ اُس نے جیپ سے چھلانگ لگا دی اور پیچھے آنے والی گاڑی سے ٹکرا کر جان گنوا بیٹھا، تاہم اہل خانہ نے پولیس کی فرضی کہانی کو مسترد کرتے ہوئے اسے منصوبہ بند قتل قرار دیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیرج داس کا پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہمنتا بسوا سرما کی وزارت اعلیٰ کے دوران مئی سے دسمبر 2021ء تک بھارتی پولیس نےکم از کم 31 ماورائے عدالت قتل کیے۔
پولیس کے مطابق مئی سے نومبر کے دوران 28 افراد فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ دسمبر کے آغاز میں مزید 3 کی موت واقع ہوئی جن میں داس بھی شامل ہے۔ رپورت میں کہا گیا ہے کہ پولیس کا بیانیہ تقریباً ہر کیس میں ایک جیسا ہے کہ ’ملزم نے فرار کی کوشش کی یا ہتھیار چھیننے کی کوشش کی، جس پر گولی چلائی گئی، تاہم لواحقین اور عینی شاہدین اکثر ان دعووں کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔
ہندوتوا واچ کے مطابق پولیس کے ہاتھوں مرنے والوں میں سے اکثر کا تعلق مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے تھا۔ 30 شناخت شدہ افراد میں سے 14 مسلمان اور 10 قبائلی برادریوں (بوڈو، دیماسا، کوکی) سے تھے جب کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد یا تو مجرم، منشیات فروش یا انتہا پسند تھے۔ اسی طرح پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی قابل توجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 مئی سے 10 دسمبر کے دوران 55 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم 30 مسلمان ہیں۔ جوینال عابدین کو گینگ لیڈر ظاہرکرکے 11 جولائی کو گھر سے گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ اہلِ خانہ اور دیہاتیوں نے پولیس بیان کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح جونگسر مشہری اور جنک برہما، ستمبر میں کراس فائر میں مارا گیا۔دونوں کے لواحقین کے مطابق دونوں پولیس حراست میں تھے اور رہائی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ علاوہ ازیں دلاور حسین کو جولائی میں حراست کے دوران گولیاں مار کر معذور کر دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ فرار ہو رہا تھا، جبکہ حسین کے مطابق پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق آسام پولیس کے ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کا وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق اگر کوئی مجرم فرار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر گولی چلانا قابلِ قبول ہے۔ یہ اقدامات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست کو مجرموں سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں 3 امور پر توجہ دینے کو کہا ہے۔ منشیات کی روک تھام، گائے کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ان واقعات نے پولیس کی شفافیت، غیر جانب داری اور قانونی طریقہ کار پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ ناقدین کے مطابق پولیس زیادہ تر کارروائیوں میں اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے ۔ آسام میں ماورائے عدالت قتل کو بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے، تاہم انسانی حقوق کمیشنز اور کئی سابق اعلیٰ افسران نے اس رجحان کو خطرناک قرار دیا ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق سابق ڈی جی پی نے فوری انصاف کے نام پر مجرموں کو عدالت میں پیش کیے بغیر مارنا غیر جمہوری قرار دیا ہے۔