ایک لمحے کو رکیں اور بات کو سمجھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
اب اس بات کو ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ بھارت کو معرکہ حق میں عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ یہ شکست اتنی شدید ہے کہ مودی حکومت کا اقتدار ڈول رہا ہے۔ کانگریس ہرروز لوک سبھا میں سوال کر رہی ہے کہ کتنے طیارے گرے؟ اور مودی سرکار کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
بھارت کے اندر تجزیہ کار اور صحافی اپنی شکست پر پشیمان ہیں۔ گرے ہوئے طیاروں کی تعداد مودی پارٹی کے وزرا کی چھیڑ بن چکی ہے۔ جتنا وہ اس سوال سے جان چھڑاتے ہیں، اتنا ہی یہ ان کے سامنے آتا ہے۔ اس معرکے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے بھارت چشم پوشی کر رہا ہے۔ وہ اپنے عوام کو تو موذی میڈیا کے ذریعے بے وقوف بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے مگر دنیا کی آنکھوں پر کیسے پٹی باندھ سکتا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں جنگ کے نقصانات کو چھپایا نہیں جا سکتا، شکست کی کالک کو بھارت کے چہرے سے پونچھا نہیں جا سکتا۔
مودی حکومت ایک جانب اپنے تباہ شدہ طیاروں کی تعداد چھپانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے دوسری جانب وہ دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ جنگ بندی کی گزارش امریکی حکومت کے دربار میں انہوں نے نہیں کی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ یہ جھوٹ بھی طشت از بام ہو چکا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر روز اس جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح بھارت ان سے جنگ بندی کے لیے ملتمس ہوا۔ وجہ بہت واضح ہے کیونکہ بہت کم وقت میں پاکستانی فوج نے ان کا بہت نقصان کر دیا تھا اس لیے جنگ بندی کی درخواست کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وزیر اعظم پاکستان بھی ساری دنیا کو بتا چکے ہیں کس طرح انہیں فیلڈ مارشل کا فون آیا، جس میں کہا گیا کہ بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست آ رہی ہے۔ اب جبکہ ہم بھارت کو مزا چکھا چکے تھے تو جنگ بندی میں حرج کوئی نہیں تھا۔ بھارتی درخواست پاکستان فتح کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ اب تو موذی میڈیا سے بھی آوازیں اٹھانا شروع ہو گئی ہیں اور اس بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کی درخواست کرنے میں پہل بھارت نے کی تھی۔ بھارتی حکومت جانتی تھی کہ اگر تھوڑی دیر اور جنگ جاری رہتی تو بھارت کا نقصان مزید ناقابل تلافی ہونا تھا۔
مودی حکومت بھارتی میڈیا میں اپنی عبرتناک شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ مصالحہ بک نہیں رہا۔ ہر روز کوئی تازیانہ ان کا منتظر ہوتا ہے۔ ہر روز ان کے کسی نہ کسی جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔ ہر روز ان کے زخموں پر کوئی نمک چھڑک جاتا ہے۔ ہر روز مودی حکومت کی ایک نئی طرح سے تذلیل ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اب مودی حکومت کے پاس دو ہی رستے ہیں۔ یا تو اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے پاکستان پر پھر حملہ کرنے کی سازش کرے یا پھر شکست تسلیم کرتے ہوئے حکمرانی سے دستبردار ہو جائے۔
دونوں ہی رستے خود کشی کے رستے ہیں۔ پاکستان پر حملہ کرتے ہیں تو پہلے سے زیادہ ہتک آمیز شکست کا ڈر ہے اور اگر شکست تسلیم کرتے ہیں تو پھر نہ صرف حکومت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے بلکہ گزشتہ دہائی کی ساری محنت اکارت جاتی نظر آتی ہے۔ پاکستان سے شکست کے بعد مودی پارٹی دہائیوں تک سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس بات کا مودی حکومت کو بہت اچھی طرح ادراک ہے۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا منظر ہی مختلف ہے۔ یہاں فتح کا جشن منایا جا رہا ہے۔ پاک فوج کی شجاعت کے ترانے گائے جا رہے ہیں۔ عوام پرجوش ہیں۔ حکمران اس فتح مبین پر شکرانے کے نفل پڑھ رہے ہیں۔ فتح اتنی بڑی حقیقت ہے کہ حکومت کی خامیاں اب لوگوں کو نظر آنا بند ہو گئی ہیں۔ عوام اب اس حکومت کے گن گا رہے ہیں۔ اب لوگوں کو شہباز شریف بڑے لیڈر نظر آ رہے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا عہدہ ملنے کا جشن سب سے زیادہ پاکستانی عوام منا رہے ہیں۔
یہ تو مدت سے خواب تھا کہ پاکستان بھارت کے طاقت کے مصنوعی غرور کو چکنا چور کر دے۔ اپنی دلیری شجاعت سے اس کو ناکوں چنے چبوائے۔ اور جس سپاہ سالار نے یہ کیا لوگ اس کے گن گا رہے ہیں۔ اس کو سلیوٹ پیش کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اچانک ایک مایوس قوم میں توانائی سی آگئی ہے۔ دنیا بھر پاکستان کی معترف ہو رہی ہے۔ پاکستانی افواج کے اس کارناموں کو دنیا کی ملٹری ہسٹری میں سنہری حروف سے لکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جو سارے پاکستان کے لیے وجہ افتخار ہے۔ ہم اس لمحے کے برسوں سے منتظر تھے اور یہ وقت ہماری دعاؤں کا ثمر ہے۔
ایک لمحے کو رکیں اور بات کو سمجھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
ایسے وقت میں اگر کوئی ہماری فوج کے سپہ سالار کو متنازعہ بنائے، جس شخص نے جنگ جیتی ہو اس پر بہتان لگائے، جس شخص کی شجاعت پر اس کو پاکستان کا سب سے بڑا عہدہ عطا ہوا ہو اس فیلڈ مارشل کی ذات پر کیچڑ اچھالے تو ایک لمحے کو سوچیں کہ اس پر بھارت کتنا خوش ہو گا۔ اس کے پاکستان دشمن بیانیے کو کتنی تقویت ملے گی۔ بھارت تو پاکستان میں ایسی قابل نفرت قوتوں کو بڑھاوا دے گا۔ اپنی شکست سے توجہ ہٹانے کے لیے دنیا کی نظریں عمران خان کی ٹوئیٹ کی طرف دلائے گا۔
عمران خان کے حالیہ ٹوئیٹ بھارت سے ہماری فتح کو داغدار کرنے کے مترادف ہیں۔ عمران کی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں، اسی ملک کے خلاف مصروف عمل ہیں۔ ان کے حالیہ ٹوئیٹ سے صرف اور صرف بھارت کا فائدہ اور پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ عمران خان اپنی ڈوبتی سیاست کی بقا کے لیے اتنے گر جائیں گے یہ تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ بھارت کی خوشنودی اور پاکستان کی ہتک کا سبب بن کر عمران خان دلوں سے ہی نہیں، عوام کی نظروں سے بھی گر چکے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم عمار مسعود عمران خان معرکہ حق نریندر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اردو کالم معرکہ حق جنگ بندی کی مودی حکومت کر رہی ہے جا رہا ہے بھارت کے کوشش کر رہے ہیں بات کو
پڑھیں:
بھارت کی ایک اور سبکی، کینیڈا کی جی 7 سربراہی میٹنگ سے مودی مائنس
گزشتہ 6 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکیں گے کیوں کہ انہیں اس پروگرام کا دعوت نامہ نہیں بھجوایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور: بھارتی چیف کا طیارے گرنے کا اعتراف، اپوزیشن کا پارلیمنٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر دعوت دی بھی گئی تب بھی مودی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جس کی وجہ ہے کہ بھارت کو یقین نہیں کہ کینیڈا کی نئی حکومت خالصتان تحریک کی سرگرمیوں پر بھارتی خدشات کو سنجیدگی سے لے گی یا نہیں۔
میڈیا کا کہنا ہے کہ ویسے بھی اب دورے کی تیاری کے لیے وقت بھی بہت کم بچا ہے۔
سکھ علیحدگی پسندوں کے ممکنہ احتجاج اور کینیڈا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے بھارتی حکومت آخری لمحے کے دعوت نامے کو شاید قبول بھی نہ کرے۔
مزید پڑھیے: سفارتی تنہائی کے شکار انڈیا میں مودی کے خلاف بغاوت کا خطرہ؟
دوسری جانب کینیڈین جی7 اجلاس کے منتظمین نے اس بات کی تاحال تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا بھارتی وزیراعظم کو اجلاس میں بلایا جائے گا یا نہیں۔
کینیڈا وسط 15 تا 17 جون جی 7 کے رہنماؤں کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، جاپان، امریکا اور یورپی کمیشن کے صدور شامل ہوں گے۔
کینیڈین سکھ برادری بھی کینیڈا حکومت سے مطالبہ کرچکی ہے کہ جی 7 سربراہی اجلاس میں نریندر مودی کو مدعو نہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: چین کی بھارت کو بڑی دھمکی، مودی سرکار پریشان
ٹورنٹو کی سکھ فیڈریشن کا مؤقف ہے کہ جب تک بھارت کینیڈا میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مجرمانہ تحقیقات میں تعاون نہیں کرتا مودی کو جی 7 اجلاس میں مدعو نہ کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کی سبکی جی 7 سربراہی اجلاس کینیڈا نریندر مودی